تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق آئی ایم ایف کے بڑھتے مطالبات اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت سے تنگ آکر حکومت نے گھٹنے نہ ٹیکنے اور ’’پلان بی‘‘ پر عمل کرنے کا اُصولی فیصلہ کرلیا ہے۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
آئی ایم ایف نے اتحادی حکومت کو صحیح معنوں میں زِچ کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک کے بعد ایک مطالبات کے بعد پاکستان کے اندرونی معاملات میں اس حد تک آئی ایم ایف دخیل ہوا کہ سیاسی معاملات کو درست کرنے کا مشورہ تک دے ڈالا۔ حکومتی زعما سر جوڑ کر بیٹھے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ آئی ایم ایف کا پروگرام ادھورا چھوڑنے میں ہی بھلائی ہے۔ اس ماہ 30 جون کو آئی ایم ایف کے ساتھ ہمارا پروگرام اختتام پذیر ہو رہا ہے۔ حکومت کی بھرپور کوشش کے باوجود آئی ایم ایف نے پکڑائی نہیں دی۔ تنگ آ کر حکومت نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب بجٹ کے بعد آئی ایم ایف سے نئے پروگرام کے معاہدے کے لیے رجوع کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے روس، افغانستان اور ایران کے ساتھ بارٹر سسٹم کے تحت نجی اور سرکاری سطح پر تجارت کی منظوری دے دی ہے۔
’’بارٹر سسٹم‘‘ دراصل بزنس ٹو بزنس تجارت ہے۔ کرنسی کی ایجاد سے پہلے دنیا بھر میں تجارت کا یہی طریقہ رائج تھا۔ اُس وقت کرنسی کا تصور ہی نہیں تھا۔ مال کے بدلے مال کی تجارت ہوتی تھی۔ مثلاً: ایک آدمی کپڑا بُنتا تھا۔ اُسے اپنی ضرورت کے لیے اناج، جوتے اور دیگر اشیا کی ضرورت ہوتی تھی۔ وہ اپنا تیار کردہ کپڑا کاندھے پر رکھتا اور چل پڑتا۔ جو شخص اناج اُگاتا یا جوتے بناتا تھا، اُسے کپڑے کی ضرورت تھی۔ چناں چہ یہ آپس میں ایک دوسرے سے مال کے بدلے مال کا سودا کر لیا کرتے تھے۔ یہ ’’بارٹر سسٹم‘‘ کہلاتا تھا۔ کرنسی کی ایجاد نے تجارت میں انقلاب برپا کر دیا اور یہ کام نہایت سہل ہوگیا۔ اب کوئی بھی شخص اپنی پراڈکٹ فروخت کر کے کرنسی حاصل کر لیتا ہے۔ اُسے اپنی ضرورت کی چیزیں خریدنے کے لیے اپنا مال کاندھے پر لاد کر جگہ جگہ پھرنے کی حاجت نہیں رہی تھی۔
بینکنگ سسٹم نے تجارت میں مزید آسانی پیدا کر دی۔ کرنسی نوٹ بھی جیب یا بریف کیس میں رکھنے کی ضرورت نہ رہی۔ بینکوں کے ذریعے ڈیجیٹل ہندسوں میں لین دین شروع ہوگیا۔ اب تو شاپنگ کے لیے بھی پرس میں نوٹ رکھنے کی ضرورت نہیں رہی۔ اے ٹی ایم کارڈ جیب میں ڈالیں اور ڈھیر ساری خریداری کر لائیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ بات نہ بنتی دیکھ کر پاکستان نے ’’پلان بی‘‘ پر عمل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزارتِ تجارت نے جمعہ کے روز باقاعدہ اس کا نوٹیفکیشن آر ایس او 2023(1) 642 جاری کر دیا ہے، جس کے تحت ریاستی ملکیتی اور نجی ادارے روس، افغانستان اور ایران کے ساتھ اشیا کے بدلے اشیا کی تجارت کرسکیں گے، تاہم نجی اداروں کا ایف بی آر کی ایکٹو ٹیکس پیئر لسٹ میں ہونا ضروری قرار دیا گیا ہے۔
وزارتِ تجارت نے روس، ایران اور افغانستان سمیت دیگر ملکوں سے بارٹر ٹریڈ کے طریقۂ کار کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق تجارت کے خواہش مندوں کے لیے پاکستان سنگل ونڈو سسٹم اور امپورٹ ایکسپورٹ کا لائسنس بنیادی شرط ہوگی۔ اشیا کی تجارت کے لیے خواہش مند افراد یا اداروں کو ایف بی آر کے آن لائن پورٹل کے ذریعے درخواست دینا ہو گی۔
دی گئی لسٹ کے مطابق پاکستان ان ممالک کو گوشت، پھل، سبزیاں، چاول، ٹیکسٹائل مصنوعات، پرفیومز، کاسمیٹکس اور آلاتِ جراحی برآمد کرسکے گا۔ ایران اور افغانستان کو پاکستان کھیلوں کا سامان بھی برآمد کرسکے گا۔ اس کے بدلے میں پاکستان افغانستان سے پھل، خشک میوہ جات، سبزیاں، دالیں اور آئل سیڈز درآمد کرسکے گا۔ مزید برآں افغانستان سے کوئلہ، میٹلز اور منرلز بھی درآمد کیے جا سکیں گے جب کہ ایران سے خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، کیمیکل پراڈکٹس، کھاد، پھل، سبزیاں اور مصالحے درآمد کیے جا سکیں گے۔
بارٹر ٹریڈ کے تحت پاکستان روس سے خام تیل، ایل این جی، ایل پی جی، گندم اور دالیں بھی منگوا سکے گا۔ اس کے علاوہ روس سے صنعتی مشینری بھی درآمد کی جا سکے گی۔
بارٹر ٹریڈ سے ان چاروں ممالک کو ہی فائدہ ہو گا۔ جہاں ان ممالک کی ایکسپورٹ بڑھے گی، وہیں پر انھیں ادائی کے لیے ڈالروں کا بندوبست بھی نہیں کرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے زرِمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ نہیں پڑے گا۔
پاکستان کو چاہیے کہ ان تین ملکوں کے علاوہ دیگر ممالک کے ساتھ بھی اسی طرح کے معاہدے کرے۔ 30 جون کے بعد پاکستان آئی ایم ایف کی پابندیوں سے آزاد ہو جائے گا۔ سٹیٹ بنک پر بھی اس کا اختیار ختم ہو جائے گا۔ روپے پر دباو میں کمی آئے گی۔ ہم اپنی مرضی سے ڈالر کا ریٹ طے کرسکیں گے۔
اس وقت ڈالر کے مقابلے میں چینی کرنسی ’’یوآن‘‘ تیزی سے بین الاقوامی تجارتی لین دین کے لیے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ پاکستان نے حالیہ درآمد شدہ روسی تیل کا معاہدہ چینی کرنسی میں ہی کیا ہے۔ ڈالر پر جتنا کم انحصار کیا جائے، اتنا ہی بہتر ہے۔ ہماری حکومت مزید بلیک میل ہونے کی بجائے جس طرح آئی ایم ایف کے سامنے ڈٹ گئی ہے، یہ لائقِ تحسین قدم ہے۔ پاکستان کو بہت پہلے ہی اس منصوبے پر عمل درآمد کر لینا چاہیے تھا۔
حکومت کو ایک بات کا خاص خیال رکھنا ہو گا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں اچھی ساکھ کے حامل اداروں اور کمپنیوں کو امپورٹ ایکسپورٹ کے لائسنس جاری کیے جائیں۔ کالی بھیڑیں ہر معاشرے میں ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ان کی تعداد زیادہ ہے۔ مالی منفعت کی خاطر ملکی ساکھ کو داو پر لگانے والوں کی کمی نہیں۔ لہٰذا خوب چھان بین کے بعد لائسنس جاری کیے جائیں اور پوری چوکسی کے ساتھ چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے۔ ناقص تجارتی مال ایکسپورٹ نہ ہونے پائے۔ ایک نمبر مال کا نمونہ دکھا کر دو نمبر یا ملاوٹ شدہ مال کی ترسیل نہ ہونے پائے۔ اس سلسلے میں ’’زیرو ٹالرینس پالیسی‘‘ اپنائی جائے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے سخت سزائیں اور بھاری جرمانے مقرر کیے جائیں۔
یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ درآمدی مال میں منشیات اسمگل ہو کر نہ آ جائیں۔ ورنہ یہ متبادل معاشی پلان سبوتاژ ہونے کا خطرہ پیدا ہوجائے گا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔