جمعہ 28 اپریل کو منگلور کے عوام نے کبل تھانے میں ہونے والے دھماکے کے خلاف اور پولیس شہدا کے ساتھ اظہارِ ہم دردی و یکجہتی کے لیے ایک بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مذکورہ مظاہرے کا اہتمام منگلور قومی امن جرگہ کی طرف سے کیا گیا تھا، جس میں منگلور ایسٹ نمبر 1 کے منتخب ناظم ملک ماجد خان نے بھرپور تعاون سے شرکت کرکے عوام دوستی کا مظاہرہ کیا۔
روح الامین نایابؔ کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rooh-ul-amin/
اُس دن نمازِ جمعہ کے بعد عوام کا ایک سیلاب اُمڈ آیا۔ منگلور کے اڈّے میں تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ سفید بینروں اور جھنڈوں کے ساتھ فضا دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حق میں نعروں سے گونج رہی تھی۔
منگلور اڈے سے پُل تک یہ ایک بڑا احتجاجی مارچ تھا، جس میں گاؤں کے نوجوانوں کے ساتھ بوڑھے اور بچوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔ لگتا تھا کہ امن کی اہمیت کا ہر ایک کو اندازہ ہے۔ امن کی ضرورت نوجوانوں کے ساتھ ساتھ بچوں اور بوڑھوں کو بھی ہے۔ امن تو چرند، پرند اور درند کیا…… پوری کائنات کی ضرورت ہے۔ امن ہے، تو سب کچھ ہے۔ امن نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ پتا نہیں اسلام آباد میں بیٹھے حکم ران یہ بات کب سمجھیں گے؟ وہ اقتدار اور کرسی کے کھیل میں غرق ہیں۔ اُنھیں آس پاس کے ماحول کا احساس تک نہیں، نہ اُنھیں پختونخوا میں دھماکوں کی آواز سنائی دیتی ہے، نہ وہ بارود کی بو کے ساتھ انسانی لہو اور جلے گوشت پوست کی بو ہی محسوس کرتے ہیں۔
جلوس عوامی نعروں کی گونج کے ساتھ منگلور پُل پہنچا۔ وہاں پہلے سے چارباغ اور سنگوٹہ کے عوام کی کثیر تعداد موجود تھی۔ منگلور پُل پر انسانی سروں کا سیلاب تھا، جو ہر طرف نظر آرہا تھا۔
جلسے کا آغاز تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا گیا۔ منگلور قومی امن جرگہ کے چیئرمین فضل غفار خان نے اپنی ابتدائی تقریر میں عوام کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے اتنی بڑی تعداد میں نکل کر ’’منگلور قومی امن جرگہ‘‘ پر اعتماد کا اظہار کیا۔ انھوں نے دھماکے میں پولیس کے شہدا کو خراجِ عقیدت پیش کیا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوامی اتحاد و اتفاق پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ ہمارا احتجاج کسی ادارے کے خلاف نہیں، بلکہ صرف اور صرف امن کے لیے ہے۔
قومی جرگہ کے اہم رکن ملک احسان اللہ خان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیاب حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔ لہٰذا اس میں اس قسم کی دہشت گرد کارروائیاں ریاستی کم زوری پر دلالت کرتی ہیں۔ باہر ملک خاص کر اڑوس پڑوس میں ہماری ساکھ ختم ہوجاتی ہے۔ مستقبل میں ہم پر کوئی اعتماد اور بھروسا نہیں کرے گا۔ لہٰذا جتنی جلدی ہوسکے، یہ ڈرامے ختم ہوجانے چاہئیں۔
منگلور ایسٹ نمبر 1 کے منتخب ناظم ملک ماجد خان نے کہا کہ عوام خود پر اعتماد پیدا کریں۔ ڈر اور خوف دلوں سے نکال دیں۔ عوام کا، قوم کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔ حکم ران سُن لیں کہ ہم اپنی حفاظت خود کریں گے۔ منگلور کے ایک گھر کے دروازے پر اگر کسی نے پتھر مارا، تو پورا گاؤں اُس دروازے کی حفاظت کے لیے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوگا۔ خبردار……! کوئی ایسی غلطی منگلور کے بارے میں نہ کرے، ورنہ پچھتائے گا۔
چارباغ امن کمیٹی کے نمایندے عدالت خان نے حکم رانوں کی بے بسی اور بے حسی پر افسوس کا اظہار کیا۔ حکومتی دوغلی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ خدارا! اٹک کے اُس پار جنت بنائی گئی ہے، اِس پار کو دوزخ بنانا کیا دانش مندی ہے؟ کیا ہمارا گناہ یہ ہے کہ ہم پشتون ہیں…… پشتون ہونے کی یہ سزا ہم کب تک بھگتتے رہیں گے، ہم یہ لاشیں کب تک اٹھاتے رہیں گے؟ بے شمار آپریشنوں کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ 20 برس بعد بھی دہشت گرد پہلے روز کی طرح تر و تازہ ہیں۔ خدا کے لیے یہ دوغلی پالیسی بند کریں اور دہشت گردوں کے خلاف راست قدم اٹھائیں۔ کسی قسم کی رو رعایت کی ضرورت نہیں۔ ہم مزید جنازے اور لاشیں اٹھانے کو تیار نہیں۔ جنھوں نے دہشت گردوں سے بات چیت کرکے انھیں سہولت دی ہے…… اور واپس علاقے میں لاکر بسایا ہے، اُن سے باقاعدہ پوچھ گچھ کی جائے اور انھیں قرار واقعی سزا دلوائی جائے۔
’’منگلور قومی امن جرگہ‘‘ کے جنرل سیکرٹری اور جلسے کے سٹیج سیکرٹری نے اپنے خطاب میں دہشت گرد کارروائیوں کی مذمت کی اور امن کے قیام پر زور دیا۔ انھوں نے عوام کی طرف سے جلسے میں پہلی قرارداد پیش کرتے ہوئے کہا کہ اس حادثے کے غیر جانب دار ذرائع سے تحقیقات کی جائیں۔ انھوں نے حکومتی دو افراد پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی کو مسترد کردیا۔ واقعہ سوات کبل میں رونما ہوا ہے اور تحقیقاتی کمیٹی پشاور سے آرہی ہے؟ چیف سیکرٹری اور ایڈیشنل آئی جی پی پر مشتمل یہ کمیٹی منگلور کے عوام مسترد کرتے ہیں۔ کمیٹی میں دو ہائی کورٹ کے حاضر جج، سوات قومی جرگہ کا ایک رکن، سوات اولسی پاسون تحریک کا ایک رکن ضرور شامل کیا جائے، ورنہ مذکورہ کمیٹی کی کوئی بھی رپورٹ عوام کو قبول نہیں ہوگی۔
دوسری قرارداد عوام نے منظور کرتے ہوئے پیش کی کہ تمام پولیس شہدا کو ’’شہدا پیکیج‘‘ دیا جائے۔ منگلور کے اے ایس آئی عبداللہ شہید کے تمام حقوق جلد از جلد اُن کے پس ماندگان کو دیے جائیں۔ عبداللہ شہید کو تمغائے جرات سے نوازا جائے۔
اس طرح ’’منگلور قومی امن جرگہ‘‘ کی تجویز پر منگلور پُل چوک کا نام آج سے ’’عبداللہ شہید چوک‘‘ کے نام سے پکارا جائے، جس پر عوام نے ہاتھ اُٹھا کر اپنی رضا مندی کا اظہار کیا۔ عوام نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اور امن کے لیے ہر وقت نکلنے کو تیار ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اتفاق اور یک جہتی کا مظاہرہ کریں گے اور کسی بھی قیمت پر امن کو نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ کیوں کہ امن ہماری خواہش نہیں ضرورت ہے، ہمارے بچوں کی ضرورت ہے۔ اہلِ سوات کی ضرورت ہے…… اور جو بھی اس ضرورت کی راہ میں روڑے اٹکائے گا، وہ ہمارا مشترکہ دشمن ہوگا۔
احتجاج چوں کہ پُرامن تھا، اس لیے کسی قسم کا نقصان کیے بغیر منتشر ہوا۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔