اپنے رویّوں میں ہم پاکستانی عجیب بے پروا لوگ واقع ہوئے ہیں۔ بغیر تحقیق کے خبریں آگے پھیلانا، سنی سنائی باتوں پر ایمان لے آنا اور دوسروں کو بھی اپنے غلط موقف پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کرنا ہمارے عمومی رویّوں میں شامل ہے۔
ہم دوسروں پر بہت جلد اعتبار اور اعتماد کر لیتے ہیں۔ ہماری اس سادہ لوحی کا ہوش یار اور شاطر لوگ خصوصاً اہلِ مغرب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جب تک ہم شاطر لوگوں سے پوری طرح لُٹ نہیں جاتے، اُس وقت تک ہم سمجھانے والوں کو بھی برا بھلا کہتے رہتے ہیں اور اپنے وقتی فائدے کے ثبوت دکھا کر اُلٹا اُنھیں بھی لُٹنے پر آمادہ کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
ایسا ہی لوٹ مار کا ایک تازہ ترین فراڈ منظرِ عام پر آیا ہے جس میں لوگ اربوں روپے سے محروم ہو گئے ہیں اور لُٹنے کے بعد اُن کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔
ہوا یہ کہ نامعلوم لوگوں کی طرف سے ایک ’’آئی ڈی اے‘‘ نامی ڈیجیٹل ایپ متعارف کروائی گئی جس میں ڈالروں میں رقم انویسٹ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ انویسٹمنٹ کی کم از کم حد 121 ڈالر (قریباً 35,000 پاکستانی روپے) مقرر کی گئی۔
طریقۂ کار یہ تھا کہ لوگ اس ایپ پر جاتے، ممبر شپ حاصل کرتے اور مطلوبہ رقم ڈالروں میں انویسٹ کر دیتے۔ اُن لوگوں نے واٹس اپ گروپ بنائے ہوئے تھے جن میں انویسٹرز کو شامل کیا جاتا تھا۔ اُن گروپس میں چَیٹنگ کی خصوصی اجازت اور دعوت تھی۔ لوگ ایک دوسرے سے ’’آئی ڈی اے‘‘ کے ذریعے اپنی ارننگ کی تفصیلات شیئر کرتے جس سے انویسٹرز کو مزید رقم انویسٹ کرنے اور زیادہ منافع کمانے کی ترغیب ملتی۔ جب کوئی شخص 121 ڈالر یا اس سے زائد رقم انویسٹ کر دیتا، تو واٹس اپ پر میسج کے ذریعے اسے ٹاسک ملتا کہ تین مزید ممبرز بنائیں۔ تین مزید ممبرز بنوانے پر باقاعدہ بونس دیا جاتا تھا۔
انویسٹرز کی ارننگ کا طریقۂ کار بہت سادہ رکھا گیا تھا۔ آئی ڈی اے ایپ پر روزانہ بارہ گھنٹے کے اندر 30 آپشنز کو ٹِک کرنا ہوتا تھا۔ اس کے بدلے میں انویسٹر کے اکاؤنٹ میں آئی ڈی اے کی جانب سے کم از کم تین ڈالر جمع کروا دیے جاتے۔ اگر انویسٹمنٹ کی رقم زیادہ ہوتی، تو اسی حساب سے ارننگ کی مد میں زیادہ رقم مل جاتی تھی۔ یہ بالکل ڈبل شاہ والا طریقۂ واردات تھا جو لوگوں کو پیسے ڈبل کرنے کا جھانسا دے کر انھیں ابتدا میں بھاری بھرکم ماہانہ منافع دیا کرتا تھا اور اس طریقے سے لوگ رغبت پا کر بہت زیادہ تعداد میں اس کے جال میں پھنس کر کروڑوں روپے سے محروم ہوگئے تھے۔ یہاں بھی وہی طریقہ اختیار کیا گیا، البتہ ارننگ روزانہ کی بنیاد پر ہوتی تھی جس کی وجہ سے لوگ بغیر ہاتھ پیر ہلائے راتوں رات کروڑ پتی بننے کے خواب آنکھوں میں سجائے جوق در جوق آئی ڈی اے کے بچھائے سنہری جال میں برضا و رغبت پھنستے چلے گئے۔
بعض لوگوں نے تو کئی کئی ہزار ڈالر انویسٹ کر دیے۔ ظاہر ہے ان لوگوں کی کمائی بھی زیادہ ہوتی تھی۔ ایسے لوگوں سے کہا جاتا تھا کہ اپنی ارننگ کی رسید واٹس اپ گروپ میں شیئر کریں، تاکہ دو تین سو ڈالر انویسٹ کرنے والوں کو مزید رقم انویسٹ کرنے کی ترغیب ملے۔
آئی ڈی اے کے انویسٹرز ہزاروں افراد تھے۔ رمضان شریف کی ابتدا میں کمپنی کی جانب سے ڈبل منی عید پیکیج کی آفر آئی کہ عید کے موقع پر انویسٹرز کو ڈبل ارننگ ملے گی۔ لوگ اس آفر کو ہاٹ کیک سجھ کر ٹوٹ پڑے اور انھوں نے بے شمار ڈالرز انویسٹ کر دیے۔ اب ہوا یہ کہ پہلے تو رقم نکلوانے کا آپشن بند کر دیا گیا۔ لوگوں کا ماتھا ٹھنکا، مگر یہ کَہ کر تسلی دی گئی کہ فنی خرابی ہے، جلد دور کر دی جائے گی۔ لوگوں نے آئی ڈی اے کے واٹس اپ گروپوں میں تشویش کا اظہار شروع کر دیا اور پھر اچانک آئی ڈی اے ایپ ہی بند ہو گئی۔ رابطہ والی سمیں بھی بند اور کمپنی کا کچھ پتا نہ چلا کہ اِسے زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا؟ سادہ لوح عوام زیادہ منافع کے لالچ میں اربوں روپے سے محروم ہوچکے تھے۔ مذکورہ فراڈ کی اطلاع جب ایف آئی اے کو دے کر کارروائی کا مطالبہ کیا گیا، تو افسران نے یہ کَہ کر جان چھڑا لی کہ انھیں حکامِ بالا کی جانب سے ڈائریکشن کا انتظار ہے۔
پاکستان میں یہ ایک المیہ ہے کہ لوگ بہت بڑے پیمانے پر فراڈیوں سے لُٹتے رہتے ہیں۔ حکومت کے علم میں سب کچھ ہوتا ہے، مگر بروقت کارروائی کرکے لوگوں کو لُٹنے سے بچانے کا کبھی سوچا تک نہیں گیا۔ جب سانپ نکل جاتا ہے، تو پھر لکیریں پیٹ پیٹ کر لوگوں کو مطمئن کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔
30، 35 سال قبل فنانس بنکوں کا قیام عمل میں لا کر عوام کی جیبوں پر کھربوں روپے کا ڈاکا مارا گیا تھا۔ ہماری نفسیات کو دیکھتے ہوئے طریقۂ کار ایک ہی اختیار کیا جاتا ہے، یعنی زیادہ منافع کا لالچ…… ہمارے عوام اتنے بھولے بھالے (یا لالچی) ہیں کہ ہمیشہ اسی لالچ میں آ جاتے ہیں۔ بقولِ افضل خان
تُو بھی سادہ ہے کبھی چال بدلتا ہی نہیں
ہم بھی سادہ ہیں اسی چال میں آ جاتے ہیں
آج کل لوگوں کو آن لائن قرضہ آفر کر کے لوٹنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا گیا ہے، مگر ایف آئی اے سمیت ذمے دار ادارے پانی سر سے اونچا ہونے اور لوگوں کے ڈوبنے کا انتظار کر رہے ہیں۔ اگر ان لوگوں کے خلاف بروقت تحقیقات کرکے ہاتھ ڈالا جائے، تو شاید یہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ کا سکینڈل نکلے گا۔
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے دیتے ہیں
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔