محترم سراج الحق صاحب کی امارت سنبھالنے کے بعد راقم کو جماعت اسلامی سے بڑی امیدیں وابستہ ہوچکی تھیں۔ سراج الحق صاحب درج ذیل چند خصوصیات کی بنا پر پسندیدہ شخصیت ٹھہرے۔
٭ گذشتہ متنازعہ امیرِجماعت کے برعکس سراج الحق صاحب کی برداشت اور صبر و تحمل کی طرزِ سیاست اپنانا۔
٭ ملکی سیاست کو مزید گندی ہونے سے بچانے کے لئے عالمی جدید طرزِ سیاست اپنانا۔
٭ جماعت اسلامی کو ایک مضبوط فلاحی و سیاسی قوت بخشنا۔
٭ عام لوگوں میں گھوم پھر کر عمومی خیالات سے آشنا ہونا۔
٭ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر کا سپریم کورٹ سے واحد صادق و امین سربراہ کا خطاب پانا۔
٭ احتساب سب کا والا نعرہ متعارف کرانا (یہ الگ موضوع ہے کہ اب احتساب سب کا والا نعرہ عمران خان کے حوالے سے کس حد تک ’’بلند آہنگ‘‘ ہے؟)
٭ اور سب سے اہم بات یہ کہ عوامی مفاد کی خاطر سیاست کی قربانی دینا اور پارٹی کے اندر جمہوری اقدار پر کسی قسم کا سمجھوتا نہ کرنا۔ اور پارٹی کو سب سے بڑی جمہوری پارٹی کا خطاب دینا ۔
مگر اسے ہم عوام کی بدقستی سمجھیں یا ملکی سیاست پر سر دھنیں کہ سوات کے گراسی گراؤنڈ میں جماعت اسلامی کے اس عظیم الشان جلسے میں جس غیر ضروری مسلے کو (دانستہ یا غیر دانستہ طور پر) چھیڑا گیا، جماعت اسلامی کو اس پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔
جماعت اسلامی کے یوم تاسیس کے حوالے سے ’’ہم سب‘‘ کے لئے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں محترم سراج الحق صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی ہر قسم کے مسلکی، علاقائی اور قومیت کے تعصبات سے پاک ہے۔ اس کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں، جماعت اسلامی میں شورائی نظام ہے جس میں کارکنان کی مشاورت کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔

جماعت اسلامی ہر قسم کے مسلکی، علاقائی اور قومیت کے تعصبات سے پاک ہے۔ اس کے دروازے ہر کسی کے لئے کھلے ہیں، جماعت اسلامی میں شورائی نظام ہے جس میں کارکنان کی مشاورت کو ہمیشہ بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔

ہم جماعت اسلامی کے ان اقدار پر بغیر کسی شک و شبہ کے اس لئے یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب جماعت اسلامی کے منشور کا حصہ ہے۔ ہم این اے 120 پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، کیوں کہ لاہوریے زندہ دلان ہیں، من میں جو آئے وہی کرتے ہیں، لیکن کم از کم ایک پارٹی امیر قرب و جوار میں جو کہ جماعت اسلامی کا وسیع ووٹ بینک بھی رکھتا ہے، اسے انتہائی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ اگر ایسے حلقوں میں دو رائے والی سیاست کا مظاہرہ کریں گے، تو جماعت اسلامی کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ اور یہ دو رائے والی سیاست کی بنیاد منگورہ کے گراسی گراؤنڈ میں باضابطہ طور پر رکھ بھی دی گئی ہے۔
سوات کے شدید سرد موسم میں جو گرما گرم بحث سیاسی حلقوں میں پائی جا رہی ہے، وہ ہے ’’سوات کی دو ضلعوں میں تقسیم‘‘ اور جماعت اسلامی نے بھی اس غیر ضروری بحث کو اپنے جلسے کا حصہ بنایا، جس سے سوات کی بڑی آبادی جماعت اسلامی سے نالاں ہوسکتی ہے۔ جماعت اسلامی کی موجودہ اتحادی حکومت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے چند ہفتے قبل اَپر سوات کو ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ اور اس انتظامی تقسیم کے نیک شگون اقدام کو مینگورہ شہر کے بعض سیاسی راہنما، تاجر برادری اور منگورہ شہر کی صحافی برادری کا سہارا لے کر اسے اہلیانِ سوات کے خلاف ایک سازش قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہمیں جماعت اسلامی سے ہرگز یہ امید نہیں تھی کہ سیاسی جلسوں میں اپنے منشور ’’احتساب سب کا‘‘ اور’’ اسلامی پاکستان خوشحال پاکستان‘‘ سے ہٹ کر علاقائی اور قومی تعصب کو ہوا دینے والی اس طرح کی غیرضروری بحث کو چھیڑے۔ اگر اپر سوات کو ضلع کا درجہ دینے کا فیصلہ ’’احتساب سب کا‘‘ اور’’اسلامی و خوشحال پاکستان‘‘ کی نفی کرتا ہے، تو کیا ہی اچھا ہوتا کہ ایسے فیصلوں کو آپ اسمبلی فلور یا کم از کم سی ایم ہاؤس میں زیر بحث لاتے، مگر پورے ضلع سوات کے لئے ایک اہم شخصیت امیر جماعت اسلامی ضلع سوات کے حلقہ انتخاب کو مضبوط بنانے اور حلقے کی تاجر برادری اور صحافیوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے اپر سوات کو ضلع کا درجہ دینے کی کھلے عام مخالفت کرکے اپر سوات کے عوام کے زخموں پر نمک چھڑکایا گیا اور متوقع امیدوار موصوف نے اپنا ووٹ بینک بڑھانے کے لئے ایسے جذبات سے کام لیا کہ وہ صرف ایک امیدوار نہیں بلکہ ضلع سوات میں جماعت اسلامی کی اہم ذمہ داری اپنے کاندھے پر لئے ہوئے ہے۔ پورے ضلعے کی امارت کو اپنے ذاتی حلقے کی بھینٹ چڑھا دی گئی۔
دوسری طرف شوریٰ کے فیصلوں کی خود دھجیاں اڑاتے ہوئے پی کے اسی کے سابق ایم پی اے، ضلع سوات کے موجودہ امیر اور آئندہ الیکشن کے لئے متوقع صوبائی اسمبلی کے امیدوار جو کہ پارٹی خلاف ورزیوں کے باعث کئی سال نا اہل بھی رہ چکے ہیں، ان کو اس طرح پیش کیا گیا کہ وہ آئندہ الیکشن کا باقاعدہ ٹکٹ ہولڈر ہے۔ انہیں اگر اس طرح کے غیر ضروری مباحثوں کو ہوا دینے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، تو پھر کہاں گیا شوریٰ اور وہ کارکنوں کی رائے کی اہمیت؟
میرا تو منھ کھلا کا کھلا تب رہ گیا جب موصوف نے حلقہ پی کے اسی کے عوام کی ہمدردی پانے کے لئے ایسی بے تکی باتوں کو چھیڑا کہ ہر ذی شعور بندہ انگشت بدنداں رہ گیا۔ موصوف نے فرمایا کہ سوات کو مزید تقسیم نہ کیا جائے۔ حکومت پانچ سو ارب کا خصوصی پیکیج منظور کراکر کالام سڑک کو تعمیر کرے اور سوات میں ترقی کے جال کو بچھائے ۔
بصد ادب و احترام اگر حکومت کے پاس پانچ سو ارب روپے ہوتے، تو شائد حکمران جماعت جسے آپ کرپشن فری قرار دے کر اتحادی حکومت کے مزے اڑا رہے ہیں، اگر آپ اس سے لاعلم بھی ہیں کہ اتنا بڑا بجٹ موجود ہے، تو پورے صوبے کا نقشہ کب کا بدل چکا ہوتا اور نئے خیبر پختونخوا میں آپ صاحبان کو اگلے الیکشن کے لئے اس طرح کے جلسوں کی چنداں ضرورت نہ پڑتی۔

کالام روڈ پر بارہ ارب روپے سے کام جاری ہے

آپ اپنے تئیں اپر سوات کی حمایت کے چکر میں جس کالام روڈ کا قصیدہ سنا رہے ہیں، اپر سوات کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ یہ سڑک وفاقی ادارے این ایچ کے زیر انتظام ہے۔ اس پر بارہ ارب روپے کی لاگت سے کام بھی جاری ہے۔
جناب، اس جلسے سے تو آپ اپنے حلقۂ انتخاب کو مضبوط کرانے میں شائد کامیاب بھی ہوچکے ہوں گے لیکن اگر بحیثیت ضلعی امیر آپ اپر سوات کے عوام کے مابین بیٹھ کرجلسے جلوس فرمائیں گے، جہاں سو فیصد لوگ نئے ضلع کے لئے ’’نوٹی فکیشن‘‘ کا بے تابی سے انتظار کررہے ہیں، آپ کے پاس ان کے لئے جماعت اسلامی کا بیانیہ کیا ہوگا؟

…………………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔