آگے بڑھنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے تصور کیجیے…… آپ گھر کے آنگن میں بیٹھے ہیں اور دروازے پر دستک ہوتی ہے کہ آپ کا ’’بھائی‘‘، ’’بیٹا‘‘، ’’ باپ‘‘،’’دادا‘‘ یا کوئی اور رشتے دار پشاور پولیس لائنز میں امام مسجد کے پیچھے مسجد میں سجدہ کرتے وقت مارا گیا…… اور جس نے مارا ہے، اس نے ’’اللہ اکبر!‘‘ کا نعرہ بھی لگایا ہے۔ وہاں ایک قیامت کا سماں ہے۔ کچھ لاشیں ملبے کے نیچے پڑی ہیں اور کچھ کو نکالا گیا ہے۔
آپ کا خون منجمد ہوجاتا ہے اور آپ پشاور پولیس لائنز کی طرف دوڑ لگانے کی خاطر گھر کے خوب صورت آنگن سے دروازے کی طرف لپکتے ہیں۔ گھر سے نکلتے وقت ماں کی چیخیں اور بہنوں کی آہیں آپ کی سماعت سے ٹکراتی ہیں۔ آپ گھر کی دہلیز پر ایک بار پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں، تو یہاں بھی قیامت نظر آتی ہے۔
آپ پشتون ہیں اور پشتونوں کے گھر میں جب ایسی خبریں آتی ہیں، تو مظلوم مائیں اور معصوم بہنیں سینہ کوبی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کے سروں سے دوپٹے گرجاتے ہیں اور وہ آہ و بکا سے عرش ہلانا شروع کردیتی ہیں ۔
آپ بھی ایسے ہی ایک منظر کا حصہ ہیں۔ کچھ دیر کے لیے تو آپ کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں، مگر ایسے میں دوبارہ آپ کی سماعت سے یہ آواز ٹکراتی ہے کہ آپ کا ’’بھائی‘‘، ’’باپ‘‘، ’’دادا‘‘ یا کوئی اور رشتے دار دھماکے میں اُڑ چکا ہے اور آپ گھر کے اندر مچے کہرام کو چھوڑ کر اُس قیامت کی طرف دوڑ لگاتے ہیں۔
وہاں پہنچ کر آپ کو انسانی اعضا اور انسانی وجود کے اڑے ہوئے پرزے خون میں لت پت نظر آتے ہیں اور آپ کی سماعت سے صرف درد اور تکلیف کے عالم میں نکلی ہوئی چیخیں ٹکراتی ہیں۔ آپ چیخ چیخ کر اپنے ’’بیٹے‘‘، ’’باپ‘‘، ’’بھائی‘‘، ’’دادا‘‘ یا کسی اور رشتے دار کو ڈھونڈنے لگ جاتے ہیں۔
اسی دوران میں آپ کی نظر ایک لاش پر پڑتی ہے اور آپ اس کے قریب جاکر اُسے پہچان لیتے ہیں کہ یہ تو آپ ہی کے گھر کا کوئی بندہ ہے…… جس کے پرزے اُڑ چکے ہیں اور باقی ماندہ جسم پر زخموں کے نشان ہیں، تو آپ سے سوال ہے کہ کیا اس لمحے آپ پاکستان سے، پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیوں سے اور پاکستان کی سیاسی پارٹیوں سے اپنے دل میں موجود محبت کو برقرار رکھ پائیں گے، کیا اس کے بعد باقی ماندہ پوری زندگی آپ کے دل میں اس ملک کے لیے، اس کے فرسودہ ترین نظام کے لیے کوئی نرم گوشہ باقی رہ پائے گا……؟
آپ اپنی آئندہ نسلوں کو اسی رشتہ دار کے بارے میں جب یہ بتائیں گے کہ وہ تو شہید ہوچکا تھا…… اور جب اس کے بعد آپ سے یہ پوچھا جائے گا کہ وہ کس محاذ پر اور کس جنگ میں شہید ہوا تھا……؟ تو کیا آپ تفصیل میں جاکر انصاف سے کام لے سکیں گے……؟
مجھے یقین ہے آپ ایسا نہیں کرسکیں گے، بلکہ آپ زندگی کو موت تک ایک بوجھ سمجھیں گے…… اور یہی آج کل پشتونوں کے احساسات ہیں ۔
میرے اس شدید حیرت کا اندازہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ جب پشاور میں بم دھماکا ہوا اور سوشل میڈیا پر مذمتوں کے انبار لگنا شروع ہوئے، تو وزیرِاعظم پاکستان نے سوشل میڈیا پر مسلم لیگ…… ہاں! صرف ’’مسلم لیگ‘‘ کے کارکنوں کو جلد سے جلد ہسپتال پہنچنے کی ہدایت کی…… اور تعصب کا غلاف اوڑھے یہ اشارہ دیا کہ وہ صرف مسلم لیگ کے وزیرِ اعظم ہیں…… اور مسلم لیگ کے کارکنوں کے علاوہ باقی سرے سے انسان ہیں ہی نہیں۔
یہ بھی کہا گیا کہ انتخابات کو ملتوی کرنے کی خاطر بم دھماکا کیا گیا۔ یہ بیانات سننے کی دیر تھی کہ پختون سیاسی ورکرز نے ایک دوسرے کی تضحیک شروع کرکے اپنی سیاسی پارٹیوں کا دفاع شروع کیا اور رات گئے تک سب یہ بھول گئے کہ آج پشاور میں 100 کے قریب پختونوں کو بم کا نشانہ بنا کر شہید کردیا گیا ہے اور کل ہوسکتا ہے اس بم کا شکار ہم بھی بنیں ۔
80 ہزار سے زائد شہادتیں پیش کرکے جو صلہ پشتونوں کو مل رہا ہے، اس کا جواب آئندہ تاریخ کے کسی مستند کتاب میں ضرور موجود ہوگا۔
جب منظور پشتین کی تحریک کا آغاز ہوا، تو مجھے غالب گمان یہ تھا کہ ملک چلانے والوں کو اب احساس ضرور ہوجائے گا کہ پشتون نوجوان اگر ان پالیسیوں سے متنفر ہیں، تو ’’ری انجینئرنگ‘‘ ضروری ہے۔ کیوں کہ خدا نہ کرے اگر یہ مایوس نوجوان دشمن کے ہتھے چڑھ گئے، تو پھر ایک اور ’’سقوط‘‘ کا ظہور ہوگا جس کی یہ ریاست متحمل نہیں ہوسکتی…… مگر یہ میری بھول تھی اور مجھ سمیت وہ تمام لوگ جو پاکستان سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں شدید نالاں ہیں۔
ان حالات میں پورا کردار پشتونوں کے اُن تمام نام نہاد لیڈروں کا بھی ہے جنھوں نے پشتونوں کی بقا کو اپنا سیاسی نعرہ بنایا ہوا ہے۔ کسی نے مذہب کا نعرہ لگا کر پشتونوں کے حق کے لیے آواز اٹھائی، تو کسی نے ریاستِ مدینہ اور تبدیلی کا نعرہ لگا کر…… کسی نے قوم پرستی کے غلاف میں، تو کسی نے روٹی کپڑا اور مکان کا لالچ دے کر۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ جنگ ایک الگ انڈسٹری ہے جس کا ایندھن بلاشبہ پچھلے کئی سالوں سے پشتون بن رہے ہیں اور فائدہ ’’کوئی اور‘‘ اُٹھا رہا ہے۔
اس بار مگر آواز بلند کرنا ہوگی۔ اس بار سوچنا ہوگا۔ اس بار ’’لالی پاپ‘‘ والی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہوگی۔ کیوں کہ ہم جنازے اُٹھاتے اُٹھاتے تھک چکے ہیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔