ہم نے سیاسی بصیر.ت اور ادراک رکھنے والے سیاسی قائدین سے سنا ہے کہ کسی بھی جمہوری ملک میں بلدیاتی ادارے نرسری کا کام سرانجام دیتے ہیں۔ اِ ن بلدیاتی اداروں میں کام کرنے کے بعد کوئی بھی سیاسی ورکر کندن بن کر ایک عوامی لیڈر بن کر اُبھرتا ہے۔ اِنھی بلدیاتی اداروں میں رہ کر کوئی بھی حقِ نمائندگی ادا کرسکتا ہے۔
فضل منان بازدا کی دیگر تحاریر کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fazal-manan-bazda/
قارئین! ہم نے ان اداروں میں کام کرنے والوں کو ضلعی، صوبائی اور وفاقی سطح کے لیڈر بن کر نکلتے دیکھا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی بھی ملک میں بلدیاتی اداروں کی مضبوطی سے جمہوریت مضبوط ہوتی ہے اور بلدیاتی اداروں کی کم زوری سے جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا اندشہ ہوتا ہے۔
پاکستان میں جمہوری اداروں کی کم زوری کی وجہ بلدیاتی اداروں کو غیر فعال بنانا ہی ہے۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بلدیاتی ادارے فوجی آمروں کے دور میں فعال رہے جب کہ جمہوری دور میں بلدیاتی اداروں کو کھڈے لائن لگا دیا جاتا تھا بلکہ اب بھی لگایا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں بظاہر سیاسی جماعتیں اقتدار میں عوامی شرکت کے دعوے تواتر کے ساتھ کرتی رہتی ہیں، لیکن درحقیقت ان سیاسی جماعتوں کے اندر سرے سے جمہوریت موجود ہی نہیں۔ ہر سیاسی جماعت کا سربراہ، صوبائی اور مرکزی قائدین، پارٹی میں حقیقی انتخابات کے حق میں ہیں…… اور نہ وہ اقتدار کو نچلی سطح پر منتقل کرنا ہی چاہتے ہیں۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ایم این اے اور ایم پی اے کا کام گلی کوچے پختہ کرنا، بجلی میڑ، سوئی گیس میٹر اور پبلک ہیلتھ کا کنکشن فراہم کرنا نہیں بلکہ اُن کا کام اسمبلیوں میں قانون سازی کرنا، بجٹ کی تیاری، منظوری اور ترقیاتی کاموں کے معیار پر نظر رکھنا ہوتا ہے، جب کہ شہروں، دیہات اور قصبوں میں ترقیاتی کام بلدیاتی نمائندوں کا کام ہے۔
عمران خان کا دعوا تھا کہ جب تحریکِ انصاف اقتدار میں آئے گی، تو اقتدار نچلی سطح پر منتقل کی جائے گی۔ تمام ترقیاتی فنڈز بلدیاتی نمائندوں کو جاری کیے جائیں گے اور صوبائی و قومی اسمبلی کے نمائندے آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کریں گے۔
قومی الیکشن 2008ء کے بعد جب جنرل مشرف اقتدار سے الگ کردیے گئے، تو جمہوری قوتوں نے بلدیاتی الیکشن کی راہ میں روڑے اٹکانا شروع کردیے۔ سپریم کورٹ کے ڈنڈے پر سیاسی پارٹیاں بلدیاتی انتخابات کرانے پر تیار ہوگئیں۔ تحریکِ انصاف جو اُس وقت خیبر پختونخوا میں برسرِ اقتدار تھی، نے صوبے میں انتخابات کرائے لیکن انتخابات سے پہلے مشرف کے بلدیاتی ایکٹ میں من مانی تبدیلیاں کیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں 2014ء کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن میں قائم ہونے والے ضلعی کونسل کے نمائندگان کے ہاتھ پیر باندھے گئے تھے۔ بلدیاتی اداروں کو فراہم کیے جانے والے ترقیاتی فنڈز کو ممبرانِ صوبائی اسمبلی کے اعتراضات پر کم کر دیا گیا جب کہ اس کے علاوہ صوبائی حکومت، مقامی حکومتوں کے ترقیاتی فنڈز پر کٹ لگاتی رہی۔ کوئی بھی سرکاری ادارہ ضلعی کونسل کے احکامات ماننے کو تیار نہیں تھا۔
تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومت بلدیاتی ایکٹ میں وقتاً فوقتاً ترامیم کرکے بلدیاتی نمائندگان کے ختیارات میں کمی کرکے انھیں بے توقیر کرتیرہی اور بے بس بناتی رہی۔ اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان کو اقتدار نچلی سطح پر منتقل کرنے اور عوام کو اقتدار میں شامل کرنے کے وعدے یاد نہیں رہے، اور وہ اُس وقت خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلا پرویز خٹک، ممبران صوبائی اسمبلی کے ہاتھوں میں کھلونا بنے رہے۔ میرزا غالبؔ کے اس شعر کے مصداق کہ
تھی خبر گرم کہ غالب کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
عمران خان کے ان وعدوں پر اعتبار کرکے ہم بھی بلدیاتی نظام کا حصہ بن بیٹھے، لیکن ڈھاک کے وہی تین پات کہ بلدیاتی نمائندگان کے ہاتھوں کچھ نہیں آیا۔ بلدیاتی اداروں کو مزید بے اختیار اور بے توقیر کرنے کے لیے خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلا محمو دخان اور صوبائی حکومت نے بلدیاتی انتخابات سے پہلے ایکٹ میں ایک بار پھر ترمیم کر دی جو کہ جمہوریت کے منھ پہ کالک ملنے کے مترادف تھا۔
ملاکنڈ کی ضلعی حکومت کا حصہ رہنے کے بعد معلوم ہوا کہ تحریکِ انصاف، خیبر پختونخوا کی حکومت بلدیاتی ایکٹ میں ترامیم کرکے اس نظام کو عضوئے معطل بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ حکومتی نیت کو مدِ نظر رکھ کر مَیں نے بلدیاتی نظام کی بے بسی اور بے توقیری پر ’’ بلدیاتی اداروں کا ایک سال‘‘، ’’بلدیاتی اداروں کے منھ پر کالک ‘‘ اور ’’خیبر پختونخوا کا نیا بلدیاتی ایکٹ ‘‘ کے عنوان سے کالم تحریر کیے جو 09/06/2016 ،18/04/2017 اور 05/05/2019 کو بالترتیب شائع ہوئے، جن میں، مَیں نے اُن تمام خامیوں اور کم زوریوں کی نشان دہی کی تھی جو بلدیاتی نظام کی ناکامی کی وجہ تھی، ہے اور آیندہ بھی رہے گی۔
تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا حکومت نے بلدیاتی الیکشن میں ناکامی کے ڈر سے جاتے جاتے بلدیاتی نمائندگان کو ضلعی انتظامیہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر مزید بے اختیار کر دیا۔ اب خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نمائندے اختیارات کے لیے سڑکوں پر احتجاج کر نے پر مجبور ہیں۔ صوبہ سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں بھی بلدیاتی نمائندے بے اختیاری کا رونا رو رہے ہیں۔
بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچے سے ہم نکلے
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔