وزیرِ اعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے قوم کے سامنے توانائی کی بچت کا منصوبہ پیش فرمایا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ حکومت ملک و قوم کا پیسا بچانے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔اس کے لیے مارکیٹیں اور شادی ہال بھی جلد بند کرنے کے احکامات جاری کر دیے گئے ہیں۔
رفیع صحرائی کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/rafi/
جہاں تک بیان کے پہلے حصے کا تعلق ہے، تو بلاشبہ یہ قابلِ تحسین بات ہے۔ ہم مجموعی طور پر خود غرض اور بے حس قوم ہیں۔ ہر بندہ انفرادی فایدے کی سوچتا ہے۔ مجموعی فایدہ کسی کے بھی پیشِ نظر نہیں ہوتا۔ ہم بچپن میں ٹیلی وِژن پر انگلش فلموں میں دیکھا کرتے تھے کہ بندہ واش بیسن پر کھڑا ہو کر پانی والی ٹونٹی سے پانی کا ایک گلاس بھرتا، ٹونٹی کو بند کرتا اور دانتوں میں برش کرنے لگتا۔ ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ ٹونٹی کے سامنے کھڑا ہوکر پانی کا گلاس بھرنے کی کیا تک ہے۔ بہت عرصے بعد پتا چلا کہ ایسا پانی کی بچت کے لیے کیا جاتا تھا۔ یہ ان لوگوں کی تربیت کا حصہ تھا۔ اب ہم اپنے ہاں دیکھیں، تو ایسا منظر شاید ہی دیکھنے کو ملے۔ ہم بیسن کی ٹونٹی ایک دفعہ کھولتے ہیں، تو تب تک بند نہیں کرتے جب تک برش کرنے کے بعد صابن سے اچھی طرح منھ ہاتھ دھو کر فارغ نہیں ہوجاتے۔
رات دن کی تمیز کیے بغیر ہمارے گھروں میں کمروں کے اندر اور باہر بجلی کے بلب جلتے رہتے ہیں۔ ہم کمرے میں موجود ہوں یا نہ ہوں، گرمی کے موسم میں کمرے کا پنکھا یا اے سی کبھی بند نہیں ہوتا۔
اس طرح سردی کے موسم میں کمرے کے اندر چوبیس گھنٹے ہیٹر چلتا رہتا ہے۔ گیزر کا آزادانہ اور بے تحاشا استعمال کیا جاتا ہے۔ گیس کے چولہے بلا ضرورت جلتے رہتے ہیں، مگر انھیں بند کرنے کی زحمت نہیں کی جاتی۔ بس یہی سوچ ہوتی ہے کہ بجلی یا گیس کا جتنا بھی بل آ جائے ادا کرلیں گے۔ یہ کبھی نہیں سوچا کہ صرف ضرورت کے وقت بجلی اور گیس استعمال کرنے کی صورت میں نہ صرف بل میں کمی ہوگی، بلکہ یہی بجلی اور گیس دوسرے کے کام آ جائے گی…… اور اگر یہ عمل تمام صارفین اختیار کریں گے، تو پورے ملک میں توانائی کی بچت کا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جو آگے چل کر بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ہر شخص کام پر جانے یا دوسرے شہروں کا سفر اختیار کرنے کے لیے ذاتی سواری کو ترجیح دیتا ہے۔ کہنے کو ہم ایک غریب ملک ہیں، مگر ملکِ عزیز میں سڑکوں پر رواں گاڑیوں کی لمبی قِطاروں کو دیکھیں، تو لگتا ہے جیسے ہم ترقی یافتہ ملکوں کو قرضہ دیتے ہیں۔ جن کے پاس چار پہیوں والی گاڑی نہیں، اس کے پاس موٹر سائیکل لازمی ہوگی اور موٹر سائیکل کے استعمال کا یہ عالم ہے کہ ہم سو میٹر کا فاصلہ بھی اسی پر طے کرتے ہیں۔ گھر سے بازار تک پیدل نہیں جاتے بلکہ یہ کہنا مناسب ہو گا کہ ہم نے پیدل چلنے کی عادت تقریباً ترک کر دی ہے۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری پٹرول کی لاگت کئی گنا بڑھ گئی ہے۔ پٹرول چوں کہ درآمد کرنا پڑتا ہے، اس لیے ہم قیمتی زرِ مبادلہ باہر بھیج کر بالواسطہ طور پر ملکی خزانے میں ڈالروں کی کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
ہم حکومتوں کو اس بات پر ہمیشہ مطعون ٹھہراتے ہیں کہ وہ آئی ایم ایف یا دیگر مالیاتی اداروں اور امیر ملکوں سے بھاری سود اور کڑی شرایط کے ساتھ قرضہ کیوں لیتی ہیں، مگر ہم نے کبھی اپنے اعمال کی طرف توجہ نہیں دی جن کا بوجھ حکومتوں کو اٹھانا پڑتا ہے اور وہ بھاری قرضے لینے پر مجبور ہوتی ہیں…… مگر یہ شعور عوام میں اجاگر کون کرے گا؟ عوام اپنے سیاسی اور مذہبی لیڈروں کی پیروی کرتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمیں لیڈر شپ بھی دوسرے اور تیسرے درجے کی میسر ہے۔ ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو عوام کے لیے رول ماڈل ثابت ہو۔ یہاں سے وزیرِ اعظم صاحب کے بیان کے دوسرے حصے کی بات کرتے ہیں کہ قوم کو بچت کا درس دینے والے ہمارے حکم ران کیا خود بھی اپنے اس سنہری قول پر عمل کرتے ہیں؟ جواب یقینا نفی میں آئے گا۔ اس وقت پاکستان میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ موجود ہے جو خود تو سوائے پروٹوکول سے لطف اٹھانے اور عوام کے ٹیکسوں پر پل کر فی وزیر ماہانہ کروڑوں روپے کا ڈکار مارنے کے کوئی کام نہیں کرتے مگر ملک کو کنگال اور ملکی خزانے کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خالی خزانے کے ہوتے ہوئے وزیرِ خزانہ کی بھی ضرورت نہیں۔ اپنی حکومت کو طوالت اور دوام بخشنے کی خاطر عوام سے قربانی مانگ کر پیٹ بھرے مراعات یافتہ طبقے کو مزید مراعات دی جا رہی ہیں۔
عام سرکاری ملازم چند دن ڈیوٹی پر نہ جائے، تو اُسے ہمیشہ کے لئے نوکری سے نکال دیا جاتا ہے مگر پی ٹی آئی کے ایم این ایز سال بھر اسمبلی سے غیر حاضر رہنے اور استعفے دینے کے باوجود کروڑوں روپے فی کس کے حق دار ٹھہریں گے۔ یہ پریکٹس پہلے بھی ہوچکی ہے، اور اب بھی ہوگی۔ عمران خان بھی قبل ازیں قوم کو سادگی کا درس دے کر اور سائیکل کی سواری کی اِفادیت بتا کر پونے چار سال ہیلی کاپٹر سے ہی نہیں اُترے۔
جنابِ وزیرِ اعظم……! آپ کا بچت پلان بہت اچھا ہے۔ پوری قوم کو اس پر عمل کرنا چاہیے۔ اسی میں ہماری بقا ہے، مگر کیا آپ خود بھی اس پر عمل کریں گے؟ کیا آپ اپنے وزرا کو 1300 سی سی گاڑیاں دے کر یہ کہیں گے کہ ان میں پٹرول اپنی جیب سے ڈلوائیں؟ کیا آپ عوام کے ٹیکسوں کے پیسوں کی بچت کرنے کی خاطر اپنے وزرا اور ایم این ایز سے بجلی، گیس اور مفت فضائی اور ریل کی ٹکٹوں کی سہولت واپس لیں گے؟ کیا وزیر اعظم ہاؤس، وزرائے اعلا ہاؤسز کے کچن کا کروڑوں روپے ماہانہ کا خرچ بند کریں گے آپ؟ کیا کمشنر،ڈی سی اور اے سی صاحبان سے لگژری گاڑیاں واپس لے کر انھیں 800 سی سی گاڑیاں دیں گے……؟ اگر یہ سب نہیں کرسکتے، تو عوام سے بھی قربانی نہ مانگیے۔ آپ کے عوام حکم رانوں کی عیاشیوں کے اخراجات پورے کرتے کرتے اپنے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑ چکے ہیں، ان زندہ ڈھانچوں میں آپ کو خون نہیں ملے گا۔ اگر حکومت کے غیر ضروری اخراجات جاری رکھ کر آپ صرف عوام سے قربانی مانگ رہے ہیں، تو آپ کا یہ اقدام ان ڈھانچوں سے آکسیجن چھیننے کے مترادف ہوگا۔ مہنگائی کے مارے عوام کو پورا وقت مزدوری کی اجازت نہ دے کر آپ ان سے ایک وقت کا کھانا چھیننے کی بجائے حکومت کی سمت درست کیجیے، تاکہ توانائی کا بحران ہی پیدا نہ ہو۔
جنابِ وزیرِ اعظم……! قربانی صرف عوام ہی سے نہ مانگیے، خود بھی تھوڑی قربانی دیجیے۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
عوام اکیلے قربانی کا بکرا کیوں بنیں؟
