ویسے تو جب سے المیۂ مشرقی پاکستان ہوا، تب سے ہمارے ہاں اس پر بحث جاری ہے کہ اس کی بنیادی وجہ کیا تھی؟ لیکن حال میں ہی میں سبک دوش ہونے والے ہمارے چیف آف آرمی سٹاف محترم جنرل قمر جاوید باجوہ نے جاتے جاتے شہدا کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اس شکست کو ’’سیاسی شکست‘‘ قرار دیا۔ تب سے اس پر دوبارہ بحث شروع ہوگئی ہے۔
ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ شہدا کی اس تقریب میں آرمی چیف کی جانب سے اس نکتہ پر اظہارِ خیال کی کم از کم مجھے تو بالکل سمجھ نہیں آئی۔ میر ے خیال میں یہ بہت غیر ضروری گفت گو تھی۔ کاش، جنرل باجوہ تین چار دن صبر کرلیتے اور بعد رخصت اس پر رائے دیتے، تو شاید اس کا اثر اتنا ہوتا۔ بہرحال ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی یہ رائے بے شک سو فیصد درست ہے، لیکن عوامی حلقوں میں اس کی توضیح و تشریح اپنے اپنے علم وعقل اور فکر کے مطابق ہو رہی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس بات کو میرٹ پر لینے کی بجائے اس کی تشریح مکمل سیاسی تعصب کے ساتھ کی جاری ہے۔
سید فیاض حسین گیلانی کی دیگر تحاریر کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/fayaz/
آپ پورا سوشل میڈیا دیکھ لیں۔ ایک طبقہ جو ہر صورت پاک فوج کو نشانہ بنانا چاہتا ہے، وہ ہاتھ دھو کر اس بات کو پھیلا رہا ہے کہ جنرل باجوہ نے اپنے ادارے کو بچانے کے لیے تاریخ کو غلط طور پر بدلنے کی کوشش کی ہے، جب کہ ایک طبقہ جو بہرحال پیپلز پارٹی اور خاص کر جناب ذوالفقار علی بھٹو سے ایک خاص وجہ سے سیاسی عناد رکھتا ہے، وہ اس کا ترجمہ یہ کر رہا ہے کہ اب واضح طور پر ’’اُدھر تم، اِدھر ہم‘‘ کی تھیوری ثابت ہوگئی۔ آرمی چیف نے براہِ راست اس کا ذمے دار بھٹو اور مجیب کو قرار دیا ہے۔
اس طرح ایک طبقہ وہ بھی ہے جو اس وجہ سے جنرل صاحب کی تقریر پر تنقید کر رہا ہے کہ جنرل صاحب نے آدھی حقیقت بیان کی ہے اور پورا سچ یہ ہے کہ یہ سیاسی و فوجی دونوں طرح کی شکست تھی۔
بہت کم لوگ ایسے ہیں جنھوں نے جنرل صاحب کی بات کو اس کے اصل معنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ جنرل صاحب بعد میں کسی دن اس بیان کی مکمل وضاحت کردیں، لیکن ہم نے بہرحال جو سمجھا وہ یہی ہے کہ جنرل صاحب کی بات تو سو فی صد درست ہے، لیکن اس کو سِیاق و سَباق کے مطابق نہیں لیا گیا۔
قارئین! ویسے تو سانحۂ مشرقی پاکستان کی اَن گنت وجوہات تھیں، سیاسی بھی تھیں اور فوجی بھی، ثقافتی بھی تھیں اور معاشرتی بھی، سماجی بھی تھیں اور اخلاقی بھی، تاریخی بھی تھیں اور جغرافیائی بھی۔ لیکن چوں کہ یہ تمام وجوہات حقیقت میں سیاسی چھتری کے نیچے ہیں، اس وجہ سے اس کی ذمے داری بہرحال سیاسی قیادت پر آتی ہے۔
جب بات سیاسی قیادت کی جائے، تو اِس کو اُس وقت کی سیاسی جماعتوں یا سیاسی قایدین سے منسوب کرنا بہت غلط اور لا علمی ہے۔ کیوں کہ اس وقت کے سیاسی قایدین و سیاسی جماعتیں براہِ راست حکومت میں تو کوئی عمل دخل نہیں رکھتی تھیں۔ البتہ پاکستان پیپلز پارٹی کو بہت ہی آخری مرحلے میں شامل کیا گیا، تاکہ پیپلز پارٹی کے سربراہ مسٹر بھٹو کو ایک سرکاری حیثیت دے کر اقوامِ متحدہ میں وکالت کے لیے بھیجا جائے۔ سو جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب کی بات کو لے کر بھٹو اور مجیب کو معتوب ٹھہرانا دانش ورانہ کرپشن ہے…… لیکن جیسا کہ اُوپر لکھا جا چکا ہے کہ جنرل صاحب کی بات اپنی روح میں تو درست ہے، لیکن اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ تب سیاست پر اجارہ داری مکمل طور پر فوج کی تھی…… بلکہ ہمارے اقتدار میں شامل سیاسی و فوجی قیادت نے سنہ 1948ء قاید کی زندگی سے ہی بہت زیادہ غلطیاں شروع کر دی تھیں، جیسے دارالحکومت کو راولپنڈی کے قریب لانا، اُردو کو قومی زبان قرار دینا، سرکاری و فوجی اداروں میں مشرقی پاکستان کو جایز حصہ داری نہ دینا، ترقیاتی کاموں اور پلانگ پر مغربی پاکستان کو مکمل اجارہ داری دینا، ’’جتگو فرنٹ‘‘ کی حکومت کو برخاست کرنا وغیرہ…… لیکن اس پر آخری اور کاری ضرب آپ نے 1965ء کے انتخابات میں قاید اعظم کی بہن سے دھاندلی کر کے لگا دی۔ گو کہ قاید کی بہن کا تعلق مغربی پاکستان سے تھا، لیکن مشرقی پاکستان کی واضح اکثریت مس فاطمہ جناح کے ساتھ تھی…… اور شیخ مجیب الرحمان مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے، یعنی اگر مجھ سے پوچھا جائے، تو میں فیلڈ مارشل ایوب خان کو سانحۂ مشرقی پاکستان کا اولین ذمے دار سمجھتا ہوں۔ پھر یہ بات بھی حقیقت ہے کہ سنہ 1951ء میں لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد فوج کا سیاست میں عمل دخل بڑھ چکا تھا اور اس کا منطقی نتیجہ 1958ء کے مارشل لا کی صورت میں نکلا۔ جب ایوب خان نے براہِ راست حکومت پر قبضہ کر لیا…… اور یوں 1958ء سے لے کر 71ء تک فوج بلاشرکتِ غیرے ملک کی حکم ران یعنی سیاست کی کنٹرولر بن گئی۔ اب تمام سیاسی پالیسیوں کی تشکیل فوجی سربراہ ہی کرتا تھا اور بدقسمتی سے جب ڈھاکہ ڈوب رہا تھا، تب بھی ملک کی باگ ڈور ایک فوجی جنرل کے پاس تھی اور ملک میں مارشل لا نافذ تھا۔ سو اس وجہ سے تمام سیاسی پالیسیاں فوج کے سربراہوں کی تھیں نہ کہ اُس دور کے سیاسی قایدین یا سیاسی جماعتوں کی۔ اگر آپ بہت کھینچ تان کر بھی اُس وقت کی سیاسی جماعتوں اور ان کے سربراہوں کو درمیان میں لے آئیں، تو تب بھی ان کا کردار آپ بیس فی صد سے آگے نہیں لے جاسکتے اور وہ بھی اس حد تک کہ شاید اگلے چند سال تک یہ سانحہ ملتوی ہوجاتا۔ کیوں کہ یحییٰ خان اینڈ کمپنی کسی بھی صورت میں اپنی اجارہ داری سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہ تھی…… اور یہ بات میں کسی سویلین کی نہیں کر رہا، بلکہ بریگیڈئر صدیق سالک سے جنرل اشفاق تک نے اس پر خود لکھا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جو بات جنرل باجوہ نے کی ہے کہ یہ فوجی شکست نہ تھی، تو وہ اس تناظر میں ہے کہ ہمارے جوان انتہائی نا مناسب حالات میں بہت دلیری سے لڑے اور انھوں نے مکمل جواں مردی سے شہادتیں دیں…… لیکن چوں کہ آپ کی سیاسی پالیساں غلط تھیں، سو ان کی یہ بہادری و جواں مردی ضایع ہوگئی۔
نئے سپہ سالار کو درپیش چیلنجز:
https://lafzuna.com/current-affairs/s-30231/
البتہ جنرل باجوہ نے جو بات قیدیوں کے حوالے سے کی ہے کہ ہمارے کل فوجی قیدی چونتیس ہزار تھے، بانوے ہزار نہیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیوں کہ ہتھیار پھینکنے کے بعد کسی سویلین کو گرفتار کرنا عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھی اور اس کا بھارت کو سفارتی نقصان ہی ہو سکتا تھا، فائدہ نہیں…… تو پھر وہ یہ حرکت کیوں کرتا؟ یہ سوال دفاعی سیاسی تاریخی اور خاص کر سفارتی تجزیہ نگاروں واسطے کافی قابل فکر ہے ۔ شاید اس پر ایک دفعہ پھر کوئی اس دور کا فوجی افسر تبصرہ کر سکے عوام منتظر ہیں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔