بقولِ شاعر
لائے اُس بت کو التجا کرکے
کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
بلآخر اس ملک کی ہیجان خیز تاریخ کا ایک سلسلہ اختتام پذیر ہوا۔ اس قحط الرجال میں اُس مردِ آہن کا ظہور ہوا جو پہلے صرف ہر تین اور اب بیشتر چھے سال بعد ہوتا ہے۔
طالع مند خان کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کیجیے:
https://lafzuna.com/author/taliman/
ہمارے ہاں ہر تین یا چھے سال بعد چیف صاحب موصوف کے آنے کے دن ’’نئی تاریخ‘‘ رقم ہوتی ہے اور جتنی تیزی اور طمطراق سے رقم ہوتی ہے، اُسی رفتار سے اُن کے جانے کے دن تاریخ کا مذکورہ ’’سنہری ورق‘‘ نکال کر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ یہ وہ لالۂ صحرائی ہے، جس کا عرصۂ حیات مختصر لیکن آب و تاب سے بھرپور ہوتا ہے…… اور جب تک یہ مہکتا ہے، تب تک اس کے دیوانے ہزاروں ہوتے ہیں۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ اس اَن مول موتی کا انتخاب اکثر وہ لوگ کرتے ہیں جن کی بداعمالیوں کے چرچے چہار سو ہوتے ہیں…… ہے نا انوکھی بات!
خیر، کوئی بات نہیں۔ ہم طفل تسلی دیتے ہوئے یہ کَہ سکتے ہیں کہ اکثر بد کے بطن سے نیک پیدا ہوتا ہے۔ اب وہ وقت ہوا چاہتا ہے کہ ’’مجاہد ملت‘‘ تعریف و توصیف کے وہ تمام پل دریا برد کر دے جو سابق سپہ سالار کے لیے باندھے گئے تھے۔ اُن تمام قصاید اور مدح سرائی کے ہر لفظ کو مٹا دیا جائے۔ اب نئے خواب دیکھیں اور پرانے خوابوں کی نئی تعبیر نکالیں…… لیکن پھر اپنی زبوں حالی اور تباہ حالی کا گلہ شکوہ آسمان سے اور یہود و ہنود کی ریشہ دوانیوں کے عذر کے نام نہ کیا جائے۔
بھئی، جس قوم کی تاریخ ہر تین یا چھے سال بعد بنتی اور پھر مٹتی ہے، تو اُس کی طرزِ حکم رانی، نظامِ انصاف و معیشت اور پاسپورٹ کی قدر و قیمت اور جگہ بین الاقوامی فہرست کے آخری نمبروں میں نہیں، تو کیا آسمان پر ہوگی؟
بہرحال اس دفعہ اپنے سپہ سالار کی تعیناتی کے عمل کو ہم نے زبردست جلا بخشی۔ گذشتہ دو سالوں سے ملک کی کل سیاست اس امر کے گرد گھوم رہی تھی کہ ’’کون بنے گا اگلا سپہ سالار؟‘‘
بوڈاگے اور خود ساختہ دانش ور:
https://lafzuna.com/current-affairs/s-30167/
پچھلے سال نومبر سے پی ڈی ایم اس وجہ سے عدمِ اعتماد کے جال میں پھنسی کہ اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو رہنے دیا جائے، تو وہ ’’فُلاں‘‘ کو آرمی چیف لائے گی جو اس حکومت کے لانے اور مصنوعی آکسیجن کے ذریعے زندہ رکھنے میں ان کا اہم کردار رہا۔ مزید یہ فکر بھی اپوزیشن کو دامن گیر رہی کہ اس دفعہ عمران خان کے لیے دو تہائی اکثریت کا بندوبست کرکے موجودہ پارلیمانی نظام کو لپیٹ کر صدارتی نظامِ حکومت میں تبدیل کردیا جائے گا (ویسے کئی موقعوں پر عمران خان نے اس خواہش کا اظہار کیا بھی ہے۔)
دوسری طرف عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد عمران خان کی تمام امیدوں پر پانی پِھر گیا اور وہ اس لیے مرنے مارنے کی مہم پر چل پڑا۔ اس کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ہم خیال آرمی چیف کی سرپرستی کے بغیر نہ وہ اپنی مصنوعی طور پر بنائی ہوئی مقبولیت برقرار رکھ سکتا ہے اور نہ اقتدار ہی میں آسکتا ہے۔ اس کے علاوہ شاید اس کو اگلے آرمی چیف کے بارے میں بھی اندازہ ہوتا کہ موجودہ حکومت کا انتخاب کون ہوسکتا ہے۔
شاید مسلم لیگ ن نے اب اپنے تجربے سے یہ سیکھ لیا ہے کہ آرمی چیف کسی کا نہیں ہوتا، وہ صرف اور صرف اپنے ادارے کا ہوتا ہے…… لیکن اگر کہیں نہ کہیں انفرادی انسانی جبلت کے عنصر کو بھی کچھ نہ کچھ اہمیت حاصل ہے، تو پھر بھی نظرِ انتخاب کا اندازہ لگانا مشکل نہ تھا۔ منتخب شدہ چیف کا ایک تاریخی پس منظر بھی تھا اور دوسرا میرٹ یا سینیارٹی کے اصول کی بنیاد بھی…… اور یہ دونوں نِکات حکومت کو سوٹ کرتے تھے۔
پہلا اصول کہ اگر حکومت کی ایک دن کی چاندنی ہوتی ہے اور اس کے بعد آرمی چیف کسی کا نہیں ہوتا، تو کیوں نہ اُس کو لگایا جائے جو تعیناتی کے وقت سب سے سنیئر ہو۔
دوسرا بنیادی عنصر نو منتخب آرمی چیف کا ایک تاریخی دبنگ کردار بھی تھا…… اور وہ یہ کہ جب حافظ صاحب ڈی جی آئی ایس آئی تھے، تو انھوں نے فائل بغل میں دبائی اور وزیرِ اعظم عمران خان کے پاس گئے۔ اُس کو اُس کی اہلیہ بشرا بی بی اور اس کی فرنٹ ومین ’’فرح گوگی‘‘ کی کرپشن اور کرتوتوں کے بارے میں ثبوت دکھائے…… جس پر عمران خان سیخ پا ہوئے اور آرمی چیف سے شکایات لگا کر اُن کا تبادلہ کرواکر کور کمانڈر گجرانوالہ متعین کیا۔ اس کے بعد لیفٹنٹ جنرل فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی متعین کیے گئے اور اُس وقت سے اکتوبر 2021ء تک، جب تک جنرل فیض حمید ڈی جی تھے، بے خوف و خطر حکومت کی۔
پچھلی صدی کے خط اور رواں صدی کے سائفر میں فرق:
https://lafzuna.com/current-affairs/s-30148/
جب حافظ صاحب کور کمانڈر گجرانوالہ تعینات ہوئے، تو حسبِ عادت عمرانی سوشل میڈیا پر اُن کی کردار کُشی شروع کی گئی۔ بشرا بی بی کی شانِ اقدس میں گستاخی کے جواب میں عمرانی سوشل میڈیا نے ان کے بارے میں ’’سکینڈل‘‘ کھڑا کیا اور گجرانوالہ کے ایک ماربل بزنس ٹائیکون کے ایک خط کو سرکولیٹ کیا۔ یہ سارے عوامل تھے جنھوں نے عمران نیازی کو خوف میں مبتلا رکھا اور ان کی تعیناتی کو متنازع بنانے پر تلے رہے۔ کیوں کہ اُن کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ مین سٹریم میڈیا کی 24 گھنٹے توجہ، اُن کی سوشل میڈیا کی تنظیم، مینجمنٹ، فنڈنگ، مدر پدر آزادی، ان کی مقبولیت، اعلا عدلیہ میں نرم گوشہ، ایلیکٹ ایبلز اور فواد چوہدری، شیخ رشید اور قریشی جیسے کرداروں کو اُن کے ساتھ جوڑے رکھنا نادیدہ ہاتھ کے کمالات ہیں۔ اُس ہاتھ کے اُٹھنے سے عمران خان کی بنائی گئی شخصیت کی عمارت دھڑام سے گرجائے گی۔
دوسری طرف حکومت کی شاید یہ خواہش تھی کہ آنے والا آرمی چیف میرٹ پر بھی ہو اور اگر حکومت کو آسانیاں نہ بھی دیں، تو کم از کم ان کی راہ میں مشکلات بھی نہ پیدا کی جائیں اور سب کے لیے میدان ہم وار رہے۔
اب اللہ کرے کہ نو منتخب آرمی چیف سیاسی عدم مداخلت کے خواب کو سچا ثابت کریں۔ آئین سے باہر ریاستی طاقت کے لیڈرز سے ہاتھ کھینچ لیں۔ آئی ایس پی آر کو پھر سے جنرل لیول سے کرنل لیول پر لے کر آئیں۔ علی وزیر اور تمام قید اور لاپتا افراد کو بازیاب کرائیں، تاکہ ان کو جنرل باجوہ جیسی الوداعی تقریر نہ کرنی پڑے کہ ’’مداخلت اچھی نہیں۔ 1971ء میں شکست فوجی نہیں سیاسی تھی۔‘‘
اور جواب میں اُن کو یہ نہ سننا پڑے کہ وہ شکست خوردہ سیاست عوامی نہیں…… بلکہ فوجی تھی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ [email protected] یا [email protected] پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
لو آگیا جی جس کا انتظار تھا
