چند دن پہلے خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک صاحب نے مدین کے مقام پر ایک شمولیتی جلسے میں اَپر سوات کو الگ ضلع کا درجہ دینے کا اعلان کیا۔ سوات کے مکینوں کی جانب سے اس پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا گیا۔ بیشتر آبادی نے اس کا خیر مقدم کیا جبکہ کچھ لوگ بے جا طور پر اس کے مخالفت پر اتر آئے۔ سیاسی نقصان کے اندیشے سے یہ لوگ کھوکھلے نعرے لگا رہے ہیں کہ ’’ہم وادئی سوات کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ اس وقت کدھر تھے جب 1973ء میں تحصیل ادینزئ کو سوات سے لے کر ضلع دیر کو دیا گیا، سوات کوہستان کو الگ کرکے ضلع کوہستان میں شامل کیا گیا، تحصیل بونیر کو 1991ء میں اور سب ڈویژن شانگلہ کو 1995ء میں الگ ضلع بنا دیا گیا؟

5337 مربع کلومیٹر پر مشتمل ضلع سوات کی آبادی تقریباً 23,10,000 نفوس پر مشتمل ہے، جو کہ خیبر پختونخوا (کے پی ) میں آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ضلع ہے (دوسرے نمبر پر مردان صرف ساٹھ ہزار آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم سے آگے ہے )۔ کے پی میں زیادہ تر اضلاع کی آبادی اوسطاً 5 لاکھ اور 10 لاکھ کے درمیان ہے اور اسی بات کو اگر بنیاد بنا دیا جائے، تو سوات کو دو کے بجائے تین اضلاع میں تقسیم کرکے تحصیل کبل کو بھی اگر الگ ضلع بنا دیا جائے، تو کچھ مضائقہ نہیں۔

الگ ضلع کے قیام سے ایک علاقے کو بہت فائدہ ملتا ہے۔ مثلاً اَپر سوات کو ضلع کا درجہ ملنے کے بعد ایک الگ ضلعی مشینری کا قیام عمل میں آجائے گا اور اَپر سوات جو کہ اب سیدو شریف سے کنٹرول ہوتا ہے، پھر ان کے فیصلے اپنے ہی علاقے میں بیٹھے ہوئے ڈپٹی کمشنر، ڈی پی اُو اور ضلع ناظم کریں گے۔ اس کے علاوہ وہاں پر الگ ڈسٹرکٹ کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے زیر سماعت مقدمات کو جلدی نمٹانے میں مدد ملے گی۔ اَپر سوات چوں کہ بہت سے حسین و جمیل وادیوں پر مشتمل ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں، اس لئے الگ ضلع کے قیام سے یہ اپنی آمدنی میں خود کفیل بھی بن جائے گا۔
5337 مربع کلومیٹر پر مشتمل ضلع سوات کی آبادی تقریباً 23,10,000 نفوس پر مشتمل ہے، جو کہ خیبر پختونخوا (کے پی ) میں آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ضلع ہے (دوسرے نمبر پر مردان صرف ساٹھ ہزار آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم سے آگے ہے )۔ کے پی میں زیادہ تر اضلاع کی آبادی اوسطاً 5 لاکھ اور 10 لاکھ کے درمیان ہے اور اسی بات کو اگر بنیاد بنا دیا جائے، تو سوات کو دو کے بجائے تین اضلاع میں تقسیم کرکے تحصیل کبل کو بھی اگر الگ ضلع بنا دیا جائے، تو کچھ مضائقہ نہیں۔ کیوں کہ حالیہ دنوں میں ہی جب کوہستان کے مکین دو اضلاع کے قیام پر متفق نہ تھے، تو صوبائی حکومت نے کوہستان کو تین اضلاع میں تقسیم کردیا جس پر اب سب متفق ہیں۔ اس کے علاوہ چترال جس کی آبادی ساڑھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل ہے، اسے بھی دو اضلاع میں تقسیم کرکے تحصیل مستوج کو الگ ضلع کا درجہ دیا جا رہا ہے، وہاں پر تو کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی اور نہ یہ کہا کہ ہم چترال کو تقسیم نہیں ہونے دیں گے۔

اَپر سوات کو ضلع کا درجہ ملنے کے بعد ایک الگ ضلعی مشینری کا قیام عمل میں آجائے گا اور اَپر سوات جو کہ اب سیدو شریف سے کنٹرول ہوتا ہے، پھر ان کے فیصلے اپنے ہی علاقے میں بیٹھے ہوئے ڈپٹی کمشنر، ڈی پی اُو اور ضلع ناظم کریں گے۔ اس کے علاوہ وہاں پر الگ ڈسٹرکٹ کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا جس سے زیر سماعت مقدمات کو جلدی نمٹانے میں مدد ملے گی۔ اَپر سوات چوں کہ بہت سے حسین و جمیل وادیوں پر مشتمل ہے اور ہر سال لاکھوں سیاح یہاں کا رُخ کرتے ہیں، اس لئے الگ ضلع کے قیام سے یہ اپنی آمدنی میں خود کفیل بھی بن جائے گا۔

نئے اضلاع کا قیام خوش آئند ہے لیکن صرف اعلان سے کچھ نہیں ہوگا۔ اَپر سوات کو الگ ضلع کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ ترقیاتی منصوبوں کا ایک پیکیج بھی دیا جائے جس میں ایک نئی یونیورسٹی، میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی کا کیمپس، ڈگری کالجز، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہاسپٹل کا قیام شامل ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اگر حکومت اَپر سوات کی سیاحتی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرے، تو اس علاقے میں یہ صلاحیت ہے کہ خودکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی اربوں روپے کا سرمایہ کما کر دے سکتا ہے۔

…………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا لازمی نہیں۔