سوات ایکسپریس وے فیز ٹو کے کئی ایک پہلوؤں کا جایزہ میرے کالموں بعنوان ’’سوات کو دوسرا لاہور بنانا کہاں کی دانش مندی ہے؟‘‘، ’’سوات ایکسپریس وے یا سوات کی بربادی کا منصوبہ؟‘‘ اور ’’سوات ایکسپریس وے فیز ٹو اور ’عوامی مفاد‘،‘‘ میں لیا گیا ہے جو پہلے ہی ان صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔ لہٰذا یہاں پر یہ کوشش کی جائے گی کہ حتی الوسع پرانی باتوں کی غیر ضروری تکرار سے اجتناب کرتے ہوئے چند نئے پہلوؤں کے حوالے سے بحث کی جائے۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے 20 مئی 2022ء کو اس ایکسپریس وے فیز ٹو کے سنگِ بنیاد کے موقع پر اپنی تقریر میں سیاحوں کے آنے کی وجہ سے مالی فایدے کا ذکر کیا، لیکن جس نکتہ کو نظر انداز کیا، اور کیا جا رہا ہے، وہ یہ ہے کہ قریباً 8790 کنال زرعی اراضی اس ایکسپریس وے فیز ٹو کی نذر ہوجائے گی۔ اس زرعی اراضی پر نہ صرف ٹماٹر، پیاز، بھنڈی، مٹر اور اس طرح کی دوسری نقد آور سبزیاں اُگائی جاتی ہیں…… بلکہ اس پر آڑو، الوچے اور املوک (یا جاپانی پھل ) وغیرہ مختلف قسم کے نقد آور پھلوں کے باغات بھی موجود ہیں۔ علاوہ ازیں اس پر لاتعداد ایگرو فارسٹری کے درخت جیسے سپیدا، توت، بکائن، بید یا بیدِ مجنوں، کیکر وغیرہ بھی موجود ہیں۔ یہ سب نہ صرف مالکانِ اراضی اور دوسرے مقامی افراد کی مختلف قسم کی ضروریات پورا کرتے ہیں بلکہ یہ ملکی منڈیوں میں فروخت کرکے سالانہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کی نقد آمدن کے ذرایع بھی ہیں۔
مزید برآ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو بطورِ عمومی اور خیبر پختونخوا کو بطورِ خصوصی زرعی خوراکی اجناس کی قلت کا پہلے ہی سے سامنا ہے۔ جب کہ ایکسپریس وے فیز ٹوکی نذر ہونے والی اراضی مذکورہ بالا مختلف قسم کی سبزیوں، پھلوں اور درختوں کے علاوہ کئی انواع کی خوراکی اجناس، جیسے دھان، گندم، مکئی وغیرہ بھی وافر مقدار میں پیدا کرتی ہے، جن کا متعلقہ اراضی کا ایکسپریس وے فیز ٹوکی نذر ہونے کی وجہ سے خاتمہ ہوجائے گا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف خیبر پختونخوا میں زرعی اجناس کی قلت میں اضافہ ہوگا بلکہ زرعی اجناس کا درآمدی بِل بھی بڑھ جائے گا اور اس طرح ملک کے زرِمبادلہ کے ذخایر پر بوجھ بھی مزید بڑھ جائے گا، جو کہ پہلے ہی سے بہت بڑے دباؤ کا شکار ہیں۔ مذکورہ سبزیوں، پھل دار درختوں، زرعی اجناس وغیرہ کی دوسری ذیلی یا ثانوی پیداوار اور فایدے بھی ہیں جیسا کہ جانوروں کے لیے چارہ، کھانا پکانے وغیرہ کے لیے ایندھن وغیرہ، جو کہ خود میں بہت ہی قیمتی چیزیں ہیں۔
ایکسپریس وے فیز ٹو کی سیاحت کے حوالے سے مالی فواید کا ذکر کرنے اور اس کا راگ الاپنے والوں کو اپنی ان باتوں پر، مذکورہ بالا حقایق کو مدِنظر رکھتے ہوئے از سرِ نو سنجیدہ طور پر سوچنے اور غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ایکسپریس وے فیز ٹو کا گزر پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی طرح بنجر اور آمدن نہ دینے والے اراضی سے نہیں بلکہ ایسی اراضی سے ہوتا ہے جس سے پہلے ہی سے مختلف مدات میں مالکانِ اراضی، کاشت کاروں اور جڑے ہوئے دوسرے لوگوں اور اس طرح حکومت کو سالانہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا مالی فایدہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ اس زرعی اراضی پر ایکسپریس وے یا موٹر وے کی تعمیر کے نتیجے میں اس کا ہمیشہ کے لیے مردہ بنانے کی وجہ سے نہ صرف مالکانِ اراضی بلکہ دوسرے جڑے ہوئے افراد، کاروبار اور حکومت کو سالانہ کتنے ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑے گا……؟ اس پر بھی توجہ اور سنجیدہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کا بھی ذکر ہوجائے کہ ایکسپریس وے فیز ٹو کے نتیجے میں سیاحت کے فروغ اور اس کے نتیجے میں لوگوں کو روزگار کے مواقع کا بھی ذکر کیا جاتا ہے، لیکن کیا کسی نے اس پر بھی سنجیدگی سے غور کیا ہے کہ زرعی اراضی اور زراعت سے جڑے ہوئے مذکورہ بالا اُمور اور مدات میں کتنے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہیں؟ ایکسپریس وے فیز ٹو کے اس زرعی اراضی سے گزرنے کی صورت میں اس کا مذکوہ اُمور کے لیے مردہ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے گلہ گھونٹ کر لوگوں کے روزگار کے ان مواقع کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جائے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 80 یا 81 کلومیٹر کے موٹر وے پر 9 انٹرچینج تعمیر کیے جائیں گے۔ کیا پاکستان میں کسی بھی جگہ اتنے تھوڑے فاصلے پر اتنے انٹرچینجوں کی کوئی مثال موجود ہے؟ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ سوات کی صورتِ حال دوسرے علاقوں سے بالکل مختلف ہے۔ اس لیے یہاں کے ٹریفک مسایل کا حل بھی معروضی حالات اور زمینی حقایق کو مدِنظر رکھتے ہوئے ڈھونڈنا اور نکالنا چاہیے، جو پشتو کے اس مقولے کے مصداق ہو: ’’ چی نہ سیخ اوسوزی او نہ کباب!‘‘ یعنی کام بھی ہوجائے اور نقصان بھی نہ ہو۔ اس تناظر میں اگر ایکسپریس وے کے بننے کے بغیر کوئی چارہ نہیں، تو اسے دریائے سوات کے کنارے…… بلکہ دونوں کناروں ہی تعمیر کیا جائے، جس کی مثالیں دنیا کے دوسرے علاقوں میں موجود ہیں۔ اس کے نتیجے میں ایک طرف بہت بڑی زرعی زمین تباہی سے بچ جائے گی اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی اور دوسرے فواید جاری اور برقرار رہیں گے۔ دوسری طرف دریائے سوات کے ہاتھوں قیمتی زرعی اراضی دریا کے بہا لے جانے سے بچ جائے گی اور ایکسپریس وے بھی بن جائے گی۔ اس طرح اس کے جو فواید سیاحت کے حوالے سے مبالغہ آمیزی سے بیان کیے جاتے ہیں، وہ بھی حاصل ہوجائیں گے۔
اگر دریائے سوات کے کنارے ایکسپریس وے بنانے سے احتراز اور اجتناب اس ڈر اور خدشے کی وجہ سے کیا جاتا ہے کہ یہ دریائے سوات میں 2010 ء کی طرح کا سیلاب نہ بہا لے جائے، تو اس منطق کو سامنے رکھتے ہوئے پھر تو درال خوڑپن بجلی کا منصوبہ اور مٹلتان گورکین پن بجلی کا منصوبہ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔ لیکن اگر اس ڈر اور خدشے کے باوجود 2010ء کے اس سیلاب کے بعدبھی پن بجلی کے ان منصوبوں پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کی گئی، تومذکورہ ڈراور خدشے کی وجہ سے دریائے سوات کے کنارے ایکسپریس وے نہ بنانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
علاوہ ازیں، اخباری رپورٹ کے مطابق، یکم جون 2022ء کو دورۂ سوات کے موقع پر صوبائی سیکرٹری توانائی و برقیات سید امتیاز حسین شاہ نے گبرال کالام پن بجلی کے منصوبے اور مدین پن بجلی کے منصوبے کے سال 2027 ء میں تکمیل اور کالام اسریت اور اسریت کیدام پن بجلی کے منصوبے جلد شروع کرنے کی بات بھی کی ہے۔
پن بجلی کے یہ منصوبے ان مقامات پر تعمیر ہوئے، تعمیر کیے جا رہے ہیں، اور تعمیر کیے جانے کا ارادہ ہے جو سب کے سب 2010ء کے سیلاب نے ہِٹ (hit) کیے تھے…… یعنی اس کی زد میں آئے تھے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مذکورہ جگہوں کا 2010 ء کے سیلاب کا ہٹ (hit) کیے جانا، یعنی اس کی زد میں آنا، اتنے بڑے منصوبوں، جن پر سوات ایکسپریس وے کے مقابلے میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی، کی جاتی ہے، اور کیے جانے کا ارادہ ہے، کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں بنی اور نہ بن پا رہی ہے، تو پھر یہ یا اس جیسے سیلاب کا ممکنہ ڈر، خدشہ یا خطرہ سوات ایکسپریس وے فیز ٹو کے دریائے سوات کے کنارے نہ بنانے کی نہ کوئی منطقی اور معقول وجہ ہے اور نہ یہ کوئی مدلل، منطقی اور معقول رکاوٹ۔
کراچی، دبئی اور دوسرے علاقوں اور ممالک میں سرمایہ کاری کرکے سمندر کی بھرائی کے ذریعے تعمیرات کے لیے زمین حاصل کی اور بنائی جاتی ہے، حتیٰ کہ سوات ہی میں مدین، بحرین اور کالام میں ایسا کیا جا رہا ہے جس کا ذکر آگے بھی آئے گا۔ تاہم سوات ایکسپریس وے فیز ٹو کے ضمن میں یہاں پر گنگا کو الٹا بہانے کی کوشش اس بودی دلیل کے ذریعے دی جاتی ہے کہ ایکسپریس وے فیز ٹو کو زرعی اراضی سے اس لیے گزارا جاتا ہے، تاکہ دریائے سوات میں طوفان کی صورت میں یہ محفوظ رہے۔
یہ منصوبہ نہ تو متعلقہ مالکانِ اراضی کا ہے اور نہ مکمل طور پر سرکاری بلکہ اس کے بڑے حصہ دار پرائیویٹ سرمایہ کار ہیں۔ اس وجہ سے اس کی آمدنی نہ تو متعلقہ مالکانِ اراضی کی جیب میں جائے گی اور نہ حکومتِ خیبر پختونخوا کی جیب میں، بلکہ ان پرائیویٹ سرمایہ کاروں ہی کی جیب میں جائے گی۔ لہٰذا ایکسپریس وے فیز ٹو کا بندوبستِ اراضی کے ریکارڈ کی بنیاد پر دریائے سوات کے کنارے، قانون کے مطابق، دریا کے کنارے سے دوسو فٹ کے فاصلے پر بنانے کا خطرہ اور خدشہ بھی ان سرمایہ کاروں یا صوبائی حکومت ہی کو لینا ہے۔ اس لیے کہ سرمایہ کار کو اگر منافع کے لیے سرمایہ کاری کرنی ہے، تو اسے خطرہ بھی مول لینا ہوگا۔ اور صوبائی حکومت کو اس لیے کہ یہ صوبائی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ دریائے سوات کے دونوں کناروں حفاظتی پشتے تعمیر کرکے نہ صرف 2010 ء میں سیلاب کی بہا لے جانے والی زرعی اراضی کو از سرِ نو بحال کردے بلکہ آیندہ کے لیے دریائے سوات کا زرعی اراضی کو بہا لے جانے کا راستہ بھی روک لے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ یہ ایکسپریس وے ایسی جگہ پر ہو جو کہ 2010ء سیلاب نے ہِٹ (hit) نہ کی ہو، یعنی اس سیلاب کا پانی اس جگہ تک نہیں پہنچ پایا ہو، تو درجِ بالا باتوں کے ہوتے ہوئے یہ بھی کوئی معقول اور وزنی دلیل نہیں۔ اس دلیل کو مدِنظر رکھتے ہوئے تو مینگورہ میں مرغزار خوڑ کے کناروں، پشتوں اور سڑکوں کی تعمیر کا کوئی جواز بنتا ہے، نہ مینگورہ بائی پاس کا، اور نہ موجودہ حکومت کے تعمیر کردہ مٹہ بائی پاس کا۔ اس لیے کہ یہ پشتے، سڑکیں اور بائی پاس ان جگہوں پر تعمیر کیے گئے ہیں جو 2010 ء کے سیلاب نے ہِٹ (hit) کی تھیں یعنی کے اس کی زد میں آئی تھیں۔
علاوہ ازیں 2010ء ہی کے سیلاب کے بعد مدین، بحرین اور کالام میں دریائے سوات اور چیل اور درال خوڑوں (جو کہ دریائے سوات کی معاون بڑی ندیوں میں سے ہیں) کے کناروں پر سرمایہ کاروں نے جو ہوٹل تعمیر کیے ہیں، وہ جگہیں بھی 2010ء کے سیلاب نے ہِٹ (hit) کی تھیں یا اس کی زد میں آئی تھیں…… بلکہ سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کرتے ہوئے دریائے سوات اور چیل اور درال خوڑوں (دریائے سوات کی معاون ندیوں) کی حدود کو بھروا کر اس میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے ہوٹل اور ریستوران وغیرہ تعمیر کیے ہیں۔
اگر صوبائی حکومت اور پرائیویٹ سرمایہ کار مرغزار خوڑ، مینگورہ بائی پاس اور مٹہ بائی پاس کی صورت میں دریائے سوات اور اس کی معاون ندیوں کے 2010ء کے سیلاب کی زد میں آنے والی جگہوں پر سرمایہ کاری کرکے سڑکیں وغیرہ تعمیرکرسکتے ہیں اور پرائیویٹ سرمایہ کار مدین، بحرین اور کالام میں چیل خوڑ، درال خوڑ اور دریائے سوات کے 2010ء کے سیلاب کی زد میں آنے والی جگہوں پر سرمایہ کاری کرکے ہوٹل وغیرہ بنوا سکتے ہیں، تو سوات ایکسپریس وے فیز ٹو کے ضمن میں حکومت اور پرائیویٹ سرمایہ کار ایسا کیوں نہیں کرسکتے؟
مستقبل میں 2010 ء کی طرح کے سیلاب کا خدشہ اور بہانہ مذکورہ بالا کاموں اور تعمیرات کی راہ میں رکاوٹ کیوں نہیں بنا…… یا بنایا گیا؟
اگر سوات میں ٹریفک کے مسئلے کے حل کے لیے دوسرے آپشن یا متبادل منصوبوں کے بجائے کسی بھی وجہ سے ایکسپریس وے کو ہرحال میں تعمیر کرنا ہے، تو جس طرح مدین تا کالام سڑک دریا کے کنارے تعمیر کی گئی ہے، اسی طرح ایکسپریس وے کو بھی سرمایہ کاروں کو خطرہ مول کر دریائے سوات کے کنارے تعمیر کرنا چاہیے، لیکن اس صورت میں بھی، جیسا کہ پہلے بھی بتایا جاچکا ہے، اسے محکمۂ مال کے ریکارڈ میں بندوبستِ اراضی کے وقت درج شدہ دریا کے کنارے ہی تعمیر کیا جائے نہ کہ موجودہ وقت میں دریا جس مقام پر بہہ رہا ہے اس کی بنیاد پر۔
اس طرح دریائے سوات کے دونوں جانب حفاظتی پشتے تعمیر کرکے اسے پا بہ زنجیر بھی کیا جائے گا۔ یوں قیمتی زرعی اراضی دریائے سوات کے دست برد سے محفوظ بھی ہوجائے گی اور ایکسپریس وے یا موٹر وے بھی بن جائے گی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔