تعلیم ایک ہمہ جہت عمل ہے جس کے ذریعے نہ صرف طالب علم کے رویوں، سوچ اور عمل میں مثبت تبدیلیاں لائی جاتی ہیں…… بلکہ اس میں موجود مخفی صلاحیتوں کو جلا بخشتی ہے…… جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انفرادی طور پر تعلیم یافتہ فرد بھی ترقی کی منازل طے کرتا ہے اور اجتماعی طور پر بھی پورا سماج ارتقا کی راہوں پر گام زن ہوجاتا ہے اور یہی انسانیت کی معراج ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے برعکس ہمارے معاشرے میں سرے سے عصری علوم کی تحصیل کو ترجیحی حیثیت دی ہی نہیں گئی اور پھر عورتوں کی تعلیم کو تو شجرِ ممنوعہ سمجھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں پھر بھی کچھ لوگ اور ادارے تعلیمِ نسواں کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں، جو یقینا ہم جیسوں کے لیے امید کی کرن اور حوصلہ افزا امر ہے۔
اس سلسلے میں گذشتہ دنوں ’’خوشحال گرلز کالج‘‘ میں ایک سائنسی نمایش کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ مَیں اپنی بیٹی فریال خان کے ہم راہ نمایش میں شریک ہوا۔ وہاں مختلف ماڈلز اور دوسرے سائنسی آلات اور ان کے استعمال پر مبنی ڈھیر سارے سٹال لگائے گئے تھے۔ تمام چیزیں سکول کی بچیوں نے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں تیار کی تھیں اور پھر باری باری مہمانوں کے سامنے اپنے ماڈل کو بہترین انداز میں ’’پریزینٹ‘‘ بھی کر رہے تھے۔
نمایش میں اگرچہ تمام سٹال دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ سبھی قابلِ تعریف تھے اور حاضرین کو ان سٹالوں اور ان میں رکھے ماڈلوں میں ایک طرف ادارے کے اساتذۂ کرام کی محنت ان کی اپنے پیشے اور فرایضِ منصبی سے گہری وابستگی اور خلوص صاف نظر آرہاتھا، تو دوسری طرف طالبات کی حصولِ علم کے لیے تڑپ، ذوق وشوق اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی نمایاں تھا…… لیکن پھر بھی کچھ ماڈل ایسے تھے جو اپنی جگہ واقعی شاہکار تھے۔
بچیوں کے ایک گروپ نے انسان میں موجود نظامِ تنفس (Respiratory System) کو ایک خوب صورت ماڈل میں واضح کیا تھا۔ ماڈل میں جس طرح سانس کی نالی سے لے کر پھیپھڑوں تک کے اعضا کو ایک خاص لچک دار مادے سے تیار کیا تھا، جس کے ایک سرے کو سرنج سے ملایا تھا۔ سرنج کا کام پمپنگ کرنا تھا، جو ہوا کو دھکیل بھی رہا تھا اور کھینچ بھی رہا تھا۔ پھر جس طرح ان ہو نہار بچیوں نے باری باری انگریزی اور اُردو میں ہمارے سامنے ماڈل کو پیش کیا، واقعی یہ عمل دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

خوشحال سکول اینڈ کالج کی مختلف کلاسوں کی بچیاں اپنے اپنے ماڈل کے ساتھ کھڑی ہیں۔ (فوٹو: نور محمد)

اس کے علاوہ بچیوں نے ایک اور ماڈل کے ذریعے ہمارے نظامِ شمسی (Solar System) کو انتہائی خوب صورت انداز میں چند سادہ اور بے کار سی چیزوں کو بروئے کار لاکر بنا یا تھا۔ یہ ماڈل گویا ایک شاہکار تھا۔ نظامِ شمسی میں موجود سیارے جو اپنے اپنے مدار میں سورج کے گرد گھوم رہے ہیں، دلچسپ انداز میں ترتیب دیے گئے تھے…… جو پریزینٹیشن کے دوران میں ایک چھوٹے سے موٹر کے ذریعے چلائے جاتے تھے۔ اس ماڈل کے ذریعے طالبات نے حاضرین سے خوب داد وصول کی۔

خوشحال سکول اینڈ کالج کی ہونہار طالبات کا اپنے ہاتھوں سے بنائے گئے سولر سسٹم کا ماڈل۔ (فوٹو: نور محمد)

مذکورہ نمایش میں ایک بات واضح انداز میں بتانے کی کوشش کی گئی تھی کہ ایک پراجیکٹ، ایک ٹاسک، ایک منزل ،ایک مشن یا ایک ٹاسک کو ٹیم ورک کے ذریعے کیسے انتہائی آسانی کے ساتھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ادارے کی بچیوں میں موجود خاص بات ان کی خود اعتمادی اور سلیس اندازِ بیاں تھی…… جس کا کریڈٹ بے شک ادارے کے اساتذہ اور انتظامیہ کو جاتا ہے۔ اُردو اور انگریزی میں یہ روانی اور سلاست ہمارے علاقوں میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
نمایش میں والدین اور عام شہریوں کے علاوہ سوات تعلیمی بورڈ کے کنٹرولر جناب عمر حسین صاحب، ماہرِ تعلیم فضل خالق صاحب، جہانزیب کالج کے پرنسپل اور پروفیسر صاحبان، سماجی شخصیت ڈاکٹر جواد اقبال صاحب اور صحافی حضرات نے شرکت کی اور طالبات کی کاوشوں کو سراہا۔
اس تقریب میں مدعو کرنے پر مَیں سکول کی پرنسپل محترمہ ہماشاکر، میم میمونہ صاحبہ اور پیاری بہن حمرافرحان صاحبہ کا شکرگزار ہوں۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔