آئیں پہلے آپ کو ایک عجیب بیماری بارے مطلع کریں۔ اس بیماری کو ’’ایملوئیڈوسز‘‘ (Amyloidosis) کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نایاب بیماری ہے کہ اس سے بہت کم لوگ متاثر ہوتے ہیں بلکہ آپ یوں کَہ لیں کہ اس بیماری کو قدرت نے چند ایک مخصوص کرداروں کے لیے رکھا ہوا ہے۔ جن پہ خود کو ہی سب کچھ سمجھ لینے کا جنون اور پاگل پن سوار ہوتا ہے شاید۔ ایسے لوگوں کو جب یہ نایاب بیماری اپنے بے رحم شکنجے میں لیتی ہے، تو ان کے پورے جسم کے اعضا یعنی دل، دماغ، گردے، تلی اور جسم کے دیگر حصوں کے سیلز میں ایملوئیڈ (Amyloid) کے غیر معمولی پروٹین جمع ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ان پروٹین کی غیر معمولی افزایش کے نتیجہ میں متاثرہ شخص کے اعضا کی کارکردگی نہ صرف متاثر ہوتی ہے بلکہ یہ مریض ہلنے جلنے سے بھی قاصر ہو جایا کرتا ہے۔
یہ بیماری کیوں لاحق ہوتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر حیران کر دینے والا جواب دیتے ہیں کہ میڈیکل سائنس باوجود اتنی تحقیق و جدید ہونے کے ابھی تک یہ کھوج لگانے میں ناکام رہی ہے کہ اس بیماری کے لاحق ہونے کی وجوہات کیا ہیں؟ البتہ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ جین میں تبدیلی اس بیماری کے لاحق ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے۔
اس بیماری کی علامات میں مریض کا خود کو کم زور اور تھکا ہوا محسوس کرنا، وزن کا بلاوجہ گر جانا، پیٹ، ٹانگوں، پاؤں، ٹخنوں کا سوج جانا، جلد پر خراشوں کا آجانا، آنکھوں کے گرد جامنی دھبوں کا پڑ جانا، ہلکی سی چوٹ لگنے پہ بھی خون کا معمول سے زیادہ نکلنا، زبان کا حجم بڑھ جانا اور سانس کا پھول جانا شامل ہے۔
ایملوئیڈوسز کی تشخیص اور علاج دنیا بھر میں موجود بیماریوں کے مقابلہ میں مشکل ترین ہے۔ اس کی تشخیص کے لیے ڈاکٹر بائی آپسی (Biopsy) کے ذریعے متاثرہ اعضا سے مریض کے سمپلز لیتے ہیں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ابھی تک اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔ آپ موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی میڈیکل سائنس کو اس بیماری کے سامنے بے بس پائیں گے ۔ بس اس بیماری کے بعد وہ مریض ہوتا ہے، اس کے اہلِ خانہ یا پھر خدائے بزرگ و برتر……کہ وہ اس شخص کو کب تک اس حالت میں رکھنا چاہتے ہیں۔
اس بیماری کا آج کل شکار پاکستان کے سابقہ آمر اور مکے لہرانے والے سابق صدر جنرل پرویز مشرف پچھلے کئی برسوں سے اس کنڈیشن میں ہے۔ ان کے اعضا گل سڑ رہے ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں مگر پہچان نہیں پاتے، زبان ہے مگر بولنے سے قاصر ہیں، ہاتھ پاؤں موجود ہیں مگر ان کوحرکت دینے سے قاصر ہیں، کان سلامت ہیں مگر سننے کی صلاحیت کب کی کھو چکے ہیں، ان کی ٹانگیں وجود کا بوجھ اٹھانے سے انکاری ہیں، ان کا کھانا پینا بند ہے، وہ برائے نام لیکویڈ چیزوں پہ زندہ ہیں…… اور ستم ظریفی یہ کہ ان کی اس خراب تر کنڈیشن میں بھی انہیں وینٹی لیٹر پہ منتقل کرنا ممکن نہیں۔ بس ایک بے بسی ہے۔ بے چارگی ہے۔ عبرت کا سامان اور توبہ کا مقام ہے۔
اس پہلے یہ بیماری شاید امریکن سابق صدر جارج بش سینئر کو تھی۔ بہرحال اتنا ضرور عرض کرنا چاہوں گا کہ اس دنیا کو اسی لیے باعثِ تماشا بھی کہا جاتا ہے اور باعثِ عبرت بھی۔اس بیماری اور اس کے شاید اب اکلوتے مریض جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے لکھنے کی ضرورت تبھی محسوس ہوئی کہ پچھلے دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک بہت ہی مایوس کن بات کی کہ جنرل مشرف کو ملک میں واپسی کا باوقار موقع دیا جائے اور ان کو آخری سانسیں دھرتی میں لینے کی اجازت ہونی چاہیے۔ اس پر مسلم لیگ کے قاید میاں نواز شریف نے کہا کہ وہ انتقام کا جذبہ نہیں رکھتے اور جنرل مشرف کا باوقار لوٹ آنا ان کا حق ہے۔ پھر ظاہر ہے اس پر مسلم لیگ کے دوسرے لیڈر بشمول مریم نواز نے نواز شریف کی حمایت کرنا ہی تھی…… جب کہ چھوٹے ریمورٹ کنٹرول طبلچی سوشل میڈیا پر میاں صاحب کی حمایت میں آگئے ۔ اس کو عظمت نواز کی انتہا بنا کر پیش کرنا شروع ہوگئے۔ تحریک انصاف ایم کیو ایم وغیرہ خاموش رہے جب کہ کچھ چھوٹی سیاسی قوتوں نے اس پر ہلکا پھلکا احتجاج کیا۔ بڑی جماعتوں میں سے پی پی پی نے جزوی اعتراض کیا۔ قیادت تو سامنے نہ آئی۔ البتہ رضا ربانی کو ذاتی خیالات کی آڑ میں کہلوایا گیا۔ مزید کارکنوں کو مطمئن کرنے کے لیے زرداری صاحب کی بڑی بیٹی بختاور بھٹو صاحبہ کہ جن کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، سے ٹوئٹ کروایا گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فوراً ہی راؤ انوار کو جیو پر لا کر مشرف کو بی بی کے قتل سے بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کی گئی…… بلکہ ہلکا سا اشارہ یہ بھی کر دیا گیا کہ بی بی کے قتل کا رُخ بلاول ہاؤس کی طرف بھی موڑا جا سکتا ہے۔
اول تو سوال یہ بنتا ہے کہ ہماری قومی فوج کو اس معاملے میں مسئلہ کیا ہے؟ جنرل مشرف اس ملک کے شہری ہیں۔ ان کا نام ای سی ایل میں موجود ہی نہیں اور نہ ان کی واپسی میں کوئی قانونی، انتظامی یا سیاسی رکاوٹ ہی ہے۔ وہ اور اُن کی فیملی چاہیں، تو آجائیں۔ ملک میں ایک قانون ہے، عدلیہ ہے، راستہ قانون بنا دے گا۔ فوج کا اس سے کیا لینا دینا!
اگر مشرف صاحب کو خالی بطورِ ایک سابقہ آرمی چیف بھی لیا جائے، تو تب بھی وہ ریٹائر ہو چکے ہیں۔ اب وہ جانیں اور قانون جانے…… جب کہ مشرف صاحب کی تاریخ خالی بطورِ فوجی نہیں…… بلکہ وہ دس سال اس ملک کے بلا شرکتِ غیرے حکمران رہے ہیں۔ پھر بعد میں ایک سیاسی جماعت بنا کر اس کے صدر بن بیٹھے تھے، تو ڈی جی آئی ایس پی آر کے ذمے یہ عوام کی جانب سے ایک قرض ہے کہ وہ اس کی وضاحت کریں کہ ان کو دلچسپی کیوں ہے؟
یہاں پر ہم فوجی قیادت کو یہ بھی کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ احترام و محبت نہ کسی قانون یا جبر سے مل سکتی ہے اور نہ کسی غیر ضروری عمل سے۔ فوج کی آج بھی عوام کی ایک بڑی اکثریت میں عزت ہے، لوگ خاکی وردی دیکھ کر ان کو سلام کرتے ہیں، لیکن اگر آپ نے پورے محکمہ کی حرمت کو ایک وقت کے آمر کے کے ساتھ وابستہ کرنا ہے کہ جس پر غلط یا صحیح آئین توڑنے، ججوں کو گرفتار کرنے، کرپشن، اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو جیسے مقبول سیاسی راہنماؤں کے قتل، اپنے شہریوں کو مارنے غایب کرنے، امریکہ کے حوالے کرنے کے الزامات ہیں، تو یہ ادارے کی عزت میں اضافہ کا باعث نہیں…… بلکہ اس کی حرمت پر مزید سوالات کا باعث بنے گا۔
آپ تاریخ دیکھ لیں۔ تمام تر کذب پر مبنی پروپیگنڈا کے باجود ایوب خان کو قوم نہیں مانتی۔ ابھی کل ہی کا واقعہ ہے یہ میری ذاتی معلومات ہیں کہ پی پی پی کے چند کارکنان جنہوں نے ضیاء الحق کی قبر پر جاکر ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے!‘‘ کا نعرہ لگایا تھا، اس میں ان کی قیادت تو دور دوسرے تیسرے بلکہ ضلعی سطح کی قیادت کا بھی کوئی عمل دخل نہ تھا۔ وہ لوگ خود وہاں گئے تھے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ آپ نے ایک آمر کو مکمل پروٹوکول کے ساتھ فیصل مسجد کی مقدس جگہ میں دفن کیا۔ حالاں کہ جنرل ضیا (مرحوم) اس مذہبی فکر سے تھے کہ جہاں قبر کا پکا کرنا منع ہے۔ آپ نے بارہ دری بنا دی…… مگر آج وہ ویران ہے۔ اور 35سال بعد عوام وہاں جاکر فاتحہ پڑھنے کے بجائے ’’بھٹو زندہ ہے!‘‘ کہہ رہے ہیں۔
سو بہتر ہے کہ آپ اپنی توجہ ویسے اس کی ضرورت نہیں، لیکن پھر بھی اگر آپ ضروری سمجھتے ہیں، تو کیپٹن سرور شہید، راشد منہاس شہید، میجر عزیز بھٹی شہید، نائیک محفوظ شہید، حوالدار لالک جان وغیرہ تک رکھیں کہ جن کو قوم غیرمشروط طور پر ہیرو تسلیم کرتی ہے۔ مشرف جیسے کرداروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ ویسے بھی مشرف صاحب لندن سے دوبئی تک وسیع جائیدادیں رکھتے ہیں۔ ان کو پنشن اور دوسرے فواید حاصل ہیں۔ سو ان کا خاندان خود ان کے معاملات بہتر کر سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی اگر مشرف کے خلاف کوئی سیاسی مخالفت یا ذاتی انتقام کیا جاتا ہے، تو آپ ضرور مداخلت کریں…… لیکن یہ بات قوم تسلیم نہیں کرسکتی کہ ان کے ٹیکس سے چلنے والا ایک قومی ادارہ ایک آمر واسطے اس حد تک چلا جائے کہ ملکی قانون کو بھی خاطر میں نہ لایا جائے۔
آخر میں محترم ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب کی خدمت میں نہایت ہی احترام و ادب سے یہ گزارش ہے کہ جنابِ والا وقت بدل گیا ہے…… اور وہ وقت قریب ہے کہ جب ایوب، یحییٰ، ضیا و مشرف صاحب کی قبروں پر کورٹ مارشل سنایا جائے گا اور ان کا ٹرائیل باقاعدہ فوجی عدالتیں کریں گی۔ وہ لوگ قومی مجرم ہیں۔ آپ اپنی جمع تفریق درست کر لیں۔ چند سال قبل آپ نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ایک وردی والے آمر کی موجودگی میں وکلا کی تحریک چل سکتی ہے…… اور کوئی سیٹھ وقار بھی اچانک نمودار ہو سکتا ہے، جو مشرف کو سزائے موت تک سنا سکتا ہے۔ اس لیے مؤدبانہ گزارش ہے کہ سر! ایک آمر کی خاطر آپ قومی ادارے کی عزت اور وقار داؤ پر نہ لگائیں۔
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
مشرف اہم ہے یا ادارہ؟
