قارئین کرام! تعمیراتی فنون نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ پہاڑوں کے اوپر شاہراہیں تعمیر ہوئیں۔ سمندر کے اندر سرنگوں میں طویل شاہراہیں، آمد و رفت کے کامیاب ذرایع مانی جاتی ہیں۔ دریاؤں اور سمندروں کے اوپر عجیب و غریب پل بن چکے ہیں۔ سنگلاخ پہاڑوں کو چیر کر ’’رن ویز‘‘، ’’ہائے ویز‘‘ بن چکی ہیں۔ شاہراہِ ریشم کو دنیا کا آٹھواں عجوبہ مانا جاتا ہے۔ غرض فنِ تعمیر اور شاہراہوں کے بنانے میں کوئی بھی مشکل ناممکن نہیں۔ ہاں، البتہ بعض صورتِ حال میں یہ انجینئرنگ ناکام ہوجاتی ہے۔ شاہراہوں کے تعمیر کے تمام طریقے ناکام ہوجاتے ہیں۔
قارئین! مینگورہ مدین روڈ پر فضاگٹ میں عدالتی موڑ سے آگے اس خوب صورت روڈ اور نظارے کو ابتدا سے مقامی لوگ ’’سرہ خٹان‘‘ کے نام سے پکارتے ہیں۔ ٹاپ پر اگر ایک جانب سکیورٹی ادارے کی خوب صورت عمارت، چیک پوسٹ، رہایش گاہ اور ریسٹ ہاؤس منظر کو چار چاند لگاتے ہیں، تو دوسری جانب عرصہ دو سال سے عمارت کے ایک گرے ہوئے پشتے نے عام شاہراہ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہاں پڑے ٹنوں ملبے نے آدھی سڑک کو بند کر رکھا ہے۔ نیچے سکول کی حد سے آگے خطرناک چھڑائی اور موڑ جب کہ اوپر سے ٹریفک آتی ہوئی، خطرناک اترائی اور موڑ نے ڈرائیوروں، مسافروں کے زندگی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے۔
اب حیرت کا مقام ہے کہ عرصہ ہوا اس مقام پر کوئی کام نہیں ہو رہا۔ دو بار اس پشتے کو ایسی شان دار انجینئرنگ سے تعمیر کیا گیا کہ وہ مکمل ہونے سے پہلے دوبارہ پھسل کر ایسی خراب اور خطرناک شکل اختیار کرگیا کہ فنِ تعمیر اور تعمیر کرنے والوں کی دانش پر دل اَش اَش کر اُٹھا۔ روڈ کنارے پڑے ملبے کو دیکھ کر ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ اسے سیمنٹ نامی چیز دور سے بھی چھو کر گزری ہے۔ لگتا تو ایسا ہے جیسے پتھر اور گارے سے پشتے کو لیپا گیا ہے، تو کیا ہم جان کی امان پا کر یہ عرض کرسکتے ہیں کہ کیا اس پشتے میں ’’سریے‘‘ نام کی چیز استعمال کی گئی ہے؟ کیا ’’این ایچ اے‘‘ یا ’’بی اینڈ آر‘‘ اور ’’سی اینڈ ڈبلیو‘‘ وغیرہ جیسے محکموں نے ٹھیکے دار کے کام کو چیک کیا تھا…… یا صرف ٹھیکے دار سے پیسے لے کر خاموشی اختیار کی گئی ہے؟ تو کیا ٹھیکے دار کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے…… یا وہ باہر سیر سپاٹے کر رہا ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس پشتے کی مستقل بنیادوں پر تعمیر ناممکن ہے؟ کیا فنِ تعمیر میں اس پشتے کا کوئی حل نہیں اور کیا ضلعی انتظامیہ چین کی بانسری بجا رہی ہے…… یا کچھ کر بھی رہا ہے…… یا اس مسئلے پر وفاق اور صوبے میں محاذ آرائی شروع ہوگئی ہے؟
شنید ہے کہ ڈی سی سوات جناب جنید صاحب ایک نہایت چابُک دست، ہوشیار اور محنتی انسان ہیں، تو کیا اس جانب وہ توجہ دیں گے کہ وہ اس نظارے کی خوب صورتی کو بحال کرائیں، ٹریفک کی مشکلات کو دور کرائیں اور سیاحوں کو سفری سہولیات مہیا کرائیں۔
مجھے اُمید ہے کہ اس ایشو کو جلد از جلد ایڈریس کیا جائے گا۔ ایک قابل انجینئر کی خدمات حاصل کی جائیں گی۔ صاف و شفاف عمل سے یہ مشکل بہ آسانی حل ہوسکتی ہے، ورنہ خورد برد، لالچ، کرپشن کے خفیہ طریقوں سے اور اپنا اپنا حصہ مانگنے سے کام نہیں چلے گا۔ اور اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے گی، تو مذکورہ پشتہ دوبارہ گرے گا۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ
نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے
دوسرے مصرعے میں ہم شاعر سے معذرت کے ساتھ تھوڑی سی ترمیم کرکے ڈی سی صاحب کو مخاطب کرتے ہیں کہ
مزہ تو تب ہے کہ ’’گرتوں‘‘ کو تھام لے ڈی سی صاحب!
……………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔