17 اکتوبر2012ء کو قومی وطن پارٹی کی بنیاد رکھی گئی۔ ہر سال اب اکتوبر میں اس کا یوم تا سیس منایا جاتا ہے جس میں مرکزی اور صوبائی قائدین اپنی رائے کا اظہا ر کرتے ہیں۔ اس دن پارٹی سے وابستہ لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ خواتین، طلبہ،یوتھ، ڈاکٹرز، وکلا، مزدوراور ہر طبقے کے لوگ گروپس کی شکل میں شرکت کرتے ہیں ۔
قومی وطن پارٹی کی بنیاد شیر پاؤ خاندان کے سربراہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے 2012ء میں رکھی تھی۔شیر پاؤ خاندان کی سیاست ایک عرصے سے جاری ہے۔ آفتاب احمد خان شیر پاؤ کے والد محترم غلام حیدر خان نے تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اس کے بعد حیات محمد خان شیر پاؤ نے صدارتی انتخابا ت میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے انتہائی کم مدت میں سیاسی میدان میں ہلچل مچا کر عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ محض چونتیس سال کی عمر میں صوبائی سینئر وزیر اور وفاقی وزیر اور بعد میں گورنر خیبر پختونخوا کے عہد ے پر فائز ہوئے اور عوام کی بے لوث خدمت کی۔ اس دوران میں حیات خان شیر پاؤ پر کئی دھما کے ہوئے لیکن ان کی ہمت اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ پہلے سے زیادہ عوامی خدمت کے جذبے سے کا م کرنے لگے۔ ذوالفقار علی بھٹو (شہید) نے ان کو ’’شیرِ سرحد‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ آخرِکار انہیں آٹھ فروری1975ء کو پشاور یونیورسٹی کے ہسٹری ڈیپا رٹمنٹ میں بم دھماکا کرکے شہید کیا گیا۔ حیات محمد خان کو پختونوں کی سیاست کا پہلا شہید مانا جاتا ہے۔

حیات محمد خان شیر پاؤ نے صدارتی انتخابا ت میں جنرل ایوب خان کے مقابلے میں فاطمہ جناح کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے انتہائی کم مدت میں سیاسی میدان میں ہلچل مچا کر عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ محض چونتیس سال کی عمر میں صوبائی سینئر وزیر اور وفاقی وزیر اور بعد میں گورنر خیبر پختونخوا کے عہد ے پر فائز ہوئے اور عوام کی بے لوث خدمت کی۔ اس دوران میں حیات خان شیر پاؤ پر کئی دھما کے ہوئے لیکن ان کی ہمت اور حوصلے میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ پہلے سے زیادہ عوامی خدمت کے جذبے سے کا م کرنے لگے۔ ذوالفقار علی بھٹو (شہید) نے ان کو ’’شیرِ سرحد‘‘ کا خطاب دیا تھا۔ آخرِکار انہیں آٹھ فروری1975ء کو پشاور یونیورسٹی کے ہسٹری ڈیپا رٹمنٹ میں بم دھماکا کرکے شہید کیا گیا۔ حیات محمد خان کو پختونوں کی سیاست کا پہلا شہید مانا جاتا ہے۔

حیات محمد خان شیر پاؤ (شہید) کی شہادت کی وجہ سے ان کے خاندان کی سیاسی سر گرمیاں نہیں رُکیں اور ان کے چھوٹے بھائی آفتاب احمد خان شیر پاؤ نے اپنے بڑے بھائی کے مشن کو آگے لے جانے کے لئے عملی سیاست میں قدم رکھا۔ سیاست میں آفتاب خان شیرپاؤ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پُرزور اصرار پر آئے۔ یوں آفتاب خان کی سیاسی جدوجہد شروع ہوئی۔ جنرل ضیا کے مارشل لا میں انہوں نے قید و بند کی مصیبتیں بھی بر داشت کیں۔ بعد میں 1988ء کو انتخابات ہوئے اور آفتاب خان صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بنے۔ پھر 1994 ء کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ دو دفعہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے۔ اس کے بعد 2002ء کے انتخابات میں ایک بار پھر کامیابی حاصل کرکے پہلے وفاقی وزیر پانی و بجلی اور بعد میں وزیر داخلہ پاکستان رہے۔ آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اپنے آبائی علاقے سے کبھی بھی الیکشن نہیں ہارے جس کی وجہ آپ کا اپنے ووٹرز اور کارکنوں سے قریبی رابطہ رکھنا ہے۔ آپ کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ ایک مرتبہ اپنے کار کن سے ملیں، تو اس کا نام کبھی نہیں بھولتے۔

سیاست میں آفتاب خان شیرپاؤ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے پُرزور اصرار پر آئے۔ یوں آفتاب خان کی سیاسی جدوجہد شروع ہوئی۔ جنرل ضیا کے مارشل لا میں انہوں نے قید و بند کی مصیبتیں بھی بر داشت کیں۔ بعد میں 1988ء کو انتخابات ہوئے اور آفتاب خان صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ بنے۔ پھر 1994 ء کو دوبارہ وزیر اعلیٰ بن گئے۔

آفتاب شیرپاؤ پر متعدد خود کش حملے ہوئے ہیں، مگر آپ نے اپنے رابطے محدود نہیں کیے جس نے آپ کے سیاسی قد میں مزید اضافہ کیا اوراب روایتی قوم پرستوں کو ٹف ٹائم دینے میں مصروف عمل ہیں۔ آپ کا شمار بلاشبہ قومی سطح پر کا میاب سیاسی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ آپ کو صوبے کا کامیاب سیاستدان قراردیا جائے، تو غلط نہیں ہوگا۔ آپ کے بعد آپ کے بڑے صاحبزاد ے سکندر حیات خان شیرپاؤ خیبر پختونخوا کی سیاست میں تیزی سے نام اور مقام بنانے والے نوجوان ہیں۔ سکندر خان شیر پاؤ اکتیس اکتوبر 1976ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے انٹر مےڈیٹ تک تعلیم پاکستان میں حاصل کی جبکہ 1999ء میں انہوں نے دریک یونیورسٹی لووا امریکہ سے بی بی اے کیا۔ والد کی اسیری کے دوران میں سکندر حیات خان نے نہ صرف پارٹی سنبھالی بلکہ بعد میں بڑی تیزی کے ساتھ پی پی پی کے ایک گروپ کو ایک ایسی جماعت میں تبدیل کیا جس کو اَب صوبائی سیاست میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پارٹی کے پی پی پی شیر پاؤ سے قومی وطن پارٹی تک کے سفر میں بھی آپ نے فعال کردار ادا کیا ہے۔ اس کے علاوہ آپ خیبر پختونخوا اسمبلی کے ممبر اور اپنی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر بھی رہے ہیں جبکہ ان کا شمار ان ممبران میں ہوتا ہے جو اپنا کردار انتہائی فعال انداز میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ وہ مئی 2013ء تا نومبر 2013ء خیبر پختونخوا اسمبلی میں سینئر وزیر برائے زراعت، توانائی و برقیات بھی رہے۔ ان دنوں خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہے ہیں اور تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کی پالیسیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انہوں نے پارٹی میں یوتھ اور کلچرل ونگ کو بھی متعارف کرایا۔ یہ سکندر خان شیر پاؤ ہی کی شخصیت کی مقناطیسیت ہے کہ پختون نوجوان تیزی سے ’’پختون نیشنلزم‘‘ کا علم بلند کرنے والے بن رہے ہیں۔ سکندر شیرپاؤ سیاست میں اپنے والد کے حقیقی معنوں میں دست راست کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پارٹی کے بڑے جلسوں میں سٹیج پر بیٹھنے کی بجائے پارٹی کے نوجوان کارکنوں کے سا تھ نیچے زمین پر بیٹھتے ہیں۔ ابلاغی مہارتوں سے مالا مال سکندر خان شیر پاؤ نہ صرف صوبے کے معاشی، سیاسی اور سماجی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ وہ قبائلی علاقے اور افغانستان کے تناظر میں پورے خطے کی سیاست سے بھی خوب واقف ہیں۔ حیات محمد خان شہید کا سیاسی نظریہ اور ان کا سیاسی ورثہ لے کر سکندر حیات خان شیر پاؤ نے جب سے خارزارِ سیاست میں قدم رکھا ہے، اسے گلزار بنانے میں جتے ہیں۔

……………..

لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری اور نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔