سوات پاکستان کے ادغام سے پہلے ایک بہت بڑا ضلع تھا، جس کے ساتھ کوہستان، بونیراور شانگلہ کے علاقے بھی شامل تھے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ کوہستان، بونیر اور شانگلہ کو مختلف اوقات میں الگ ضلع کی حیثیت دی گئی۔ اگر ان تینوں اضلاع کی جغرافیائی حیثیت کو دیکھا جائے، تو اس میں کچھ وزن ہے کہ ان تینوں علاقوں کے لوگوں کی سیدو شریف تک رسائی مشکل تھی، مگر اس کانقصان یہ ہواکہ سوات جوکہ ایک بہت بڑی اِکائی تھا اور اس کی صوبائی سیٹوں کی تعداد پشاور سے بھی کہیں زیادہ تھی، ایک سازش کے تحت اس کو الگ اکائیاں ظاہرکرکے اس علاقے سے وزیراعلیٰ، گورنر یا اہم محکمے کا صوبائی وزیر نہیں لیا گیا۔
2008ء کے انتخابات میں جب سوات کے تمام سات حلقو ں سے عوام نے اے این پی کے ارکان کو صوبائی اسمبلی میں بھیج دیا، تو راقم نے اس وقت یہ رپورٹ کیا کہ سوات سے وزیراعلیٰ لیا جائے، مگر اس کے برعکس مردان سے حیدر ہوتی کو وزیراعلیٰ لیا گیا۔ سوات سے منتخب نمائندگان میں اختلافات اس کی بڑی وجہ تھی۔ اس وقت مٹہ سے تعلق رکھنے والے ایوب اشاڑے، خوازہ خیلہ سے ڈاکٹر حیدر اور مینگورہ سے واجد علی خان کے درمیان واضح اختلافات تھے، جس کا فائدہ ہوتی خاندان کو ہوا۔
پھر سوات کے لوگوں نے 2013ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا اور کچھ ایسے ایم پی اے سامنے آئے جن میں سے کسی کو وزیر اعلیٰ بننے کے لائق نہیں سمجھا گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ اَپر سوات سے تعلق رکھنے والے سابقہ عوامی نیشنل پارٹی کے ایم پی اے جو کہ اس وقت پی ٹی آئی کے ایم پی اے ہیں، سوات کو دوحصوں میں تقسیم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، مگر اس کا فائدہ کیا ہوگا؟ بقول ان کے خوازہ خیلہ یا مٹہ میں اَپر سوات کا ہیڈ کواٹر بنایا جائے گا جس پر واضح اختلافات موجود ہیں اور یہ اختلافات خدانخواستہ کسی ناخوشگوار حالات میں بھی تبدیل ہوسکتے ہیں۔ مذکورہ ہیڈکوارٹرمیں ایک ڈی سی اور ایک ڈی پی او کو تعینات کیا جائے گا۔ ضلع کے لئے باقی لوازمات پہلے سے ان علاقوں میں موجود ہیں۔ عدالتیں مٹہ، بحرین اور خوازہ خیلہ میں کام کر رہی ہیں، مگراس کے نقصانات کیا ہوں گے، وہ ملاحظہ کیجئے:

2008ء کے انتخابات میں جب سوات کے تمام سات حلقو ں سے عوام نے اے این پی کے ارکان کو صوبائی اسمبلی میں بھیج دیا، تو راقم نے اس وقت یہ رپورٹ کیا کہ سوات سے وزیراعلیٰ لیا جائے، مگر اس کے برعکس مردان سے حیدر ہوتی کو وزیراعلیٰ لیا گیا۔ سوات سے منتخب نمائندگان میں اختلافات اس کی بڑی وجہ تھی۔ اس وقت مٹہ سے تعلق رکھنے والے ایوب اشاڑے، خوازہ خیلہ سے ڈاکٹر حیدر اور مینگورہ سے واجد علی خان کے درمیان واضح اختلافات تھے، جس کا فائدہ ہوتی

سیدو شریف جو کہ ملاکنڈ ڈویژن کا ہیڈکواٹر ہے، متنازعہ کردیا جائے گا۔ یوں ڈی آئی جی کے دفاتر یہاں سے ملاکنڈ منتقل ہوسکتے ہیں۔ اس وقت سوات اور مردان پشاور کے بعد دو بڑے ضلعے ہیں۔ مردان کی تقسیم کی کوئی بات نہیں کر رہا جبکہ صوبے کی تاریخ میں پشاور، مردان، صوابی اور ہزارہ سے وزیراعلیٰ آچکے ہیں۔ صرف سوات واحد ضلع ہے جس نے ماضی میں اتفاق کا عملی مظاہرہ کرکے ایک ہی پارٹی کو ووٹ دیا۔ یہ متاثرہ ضلع بھی ہے مگرا س سے کوئی وزیراعلیٰ آج تک نہیں آیا ہے۔ قوی امکان ہے کہ آئندہ اس ضلع سے وزیراعلیٰ کو لیا جائے۔ اب اَپر سوات میں ’’کسی‘‘ کے اشارے پر یا صرف محض اپنے ذاتی مفادات کے لئے دوسرا ضلع بنایا جا رہا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ کچھ خان زادوں کے مزاج پر یہ بات گراں گزرتی ہے کہ وہ سیدوشریف تشریف لاتے ہیں۔

سیدو شریف جو کہ ملاکنڈ ڈویژن کا ہیڈکواٹر ہے، متنازعہ کردیا جائے گا۔ یوں ڈی آئی جی کے دفاتر یہاں سے ملاکنڈ منتقل ہوسکتے ہیں۔

دوسری طرف مٹہ اور خوازہ خیلہ کے درمیان بھی واضح اختلافات موجود ہیں جبکہ اس پر ایک ہی پارٹی کے دو ایم پی اے صاحبان میں اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر صاحب اپنے علاقے کے لئے مٹہ کے ایم پی اے محمود خان کی طرح کوئی اہم کام کریں، تو مناسب ہوگا۔ محمودخان نے صوبائی حکومت سے علاقے کی ترقی کیلئے پشاور اور صوابی کے بعد سب سے زیادہ یعنی پچاس ارب روپے سے زائد رقم حاصل کررکھی ہے جبکہ ڈاکٹر حیدر علی خان صاحب صرف نان ایشو کو ہوا دے رہے ہیں، جس سے انتشار ہی پیدا ہوگا۔ میں ان سطور کے ذریعے اُن ناسمجھ اور بعض نام نہاد اور غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چلانے والوں سے التماس کرتا ہوں کہ علاقے کے لوگوں میں انتشار پھیلانے کے بجائے ہم آہنگی پیداکریں۔ اَپر سوات اور لوئر سوات بارے تفریق کا ہم نے سنا بھی نہیں تھا۔ سوات سب کا سانجھا ہے۔ تمام حلقوں کے لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں سے زیادہ مخلص ہیں۔ خدارا، ان میں دراڑیں نہ ڈالیں۔ اپنے ذاتی مفادات اور دکانداری کو قومی مفادات پر فوقیت دیں۔ اگر سوات دو ٹکڑے ہوا، تو اَپر سوات کی مثال بھی شانگلہ اور بونیر جیسی ہی ہوگی۔ کیوں کہ لوئر سوات پھر بھی اپنا حق حاصل کرتا رہے گا اور صوبائی وسائل صوبوں کے لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کے لحاظ سے تقسیم ہوں گے۔ اَپر سوات میں خراب سڑکوں کے ذمہ دار لوئر سوات والے ہرگز نہیں اور نہ ہی ان سیاحتی علاقوں کیلئے وسائل کے نہ ہونے میں لوئر سوات کے لوگ یا ایم پی ایز کو ذمہ دار ٹھہرایاجاسکتاہے بلکہ لوئر سوات کے تمام ایم پی ایز اور صحافیوں نے تمام سوات کے مسائل پر یکساں آواز اٹھائی ہے جبکہ ماضی میں سوات کی بربادی کے لئے جو بھی لوگ متحرک تھے، انہوں نے اَپر سوات کے لوگوں کو استعمال کیاہے نہ کہ لوئر سوات کے لوگ استعمال ہوئے ہیں۔
لہٰذا ہوش کے ناخن لیں اور اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے بجائے سوات کی ترقی اور دیرپا امن کے لئے متحد ہوجائیں۔