دنیا میں ایڈز (ایکوائرڈ ایمیون ڈیفشنسی سنڈروم) کا سب سے پہلا کیس افریقہ میں انیس سو اسّی کی دہائی میں سامنے آیا۔ اس مرض کی روک تھام کے لئے سنہ نوے کے دور میں علاج دریافت کرلیا گیا ۔
دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد اس وقت چھتیس اعشاریہ سات ملین ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت ایچ آئی وی سے متاثر ہ افراد کی تعداد ایک لاکھ تینتیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔ پاکستان میں دن بہ دن ایچ آئی وی سے متاثر ہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہونا انتہائی تشویش کا باعث قرار دیا جارہا ہے۔ گذشتہ روز پاکستان جرنل آف میڈیکل ایسوسی ایشن اور پاکستان ایڈز کنٹرول پروگرام کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچھلے سال ایچ آئی وی سے متاثر ستانوے ہزار افراد کے کیسز سامنے آئے جبکہ رواں سال سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق اس میں مزید چھتیس ہزار افراد کا اضافہ ہوا۔ خوش قسمتی سے عالمی سطح پر پاکستان میں دوسری بیماریوں میں کمی آئی ہے، تو دوسری جانب ایڈز جیسی خطرناک بیماری کا وبائی شکل اختیار کرنا ہمارے ریاستی اِداروں کے لئے باعثِ تشویش اور لمحۂ فکریہ ہے۔ اس وقت پاکستان کا صوبہ پنجاب ایڈز سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔ پنجاب میں ساٹھ ہزار افراد ایچ آئی وی وائرس سے متاثر ہیں۔ سندھ باؤن ہزار ایک سو، خیبر پختونخوا گیارہ ہزار بیس اور صوبہ بلوچستان میں اس وقت تین ہزار افراد ایچ آئی وی کا شکا رہوچکے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہروں میں اس وقت کراچی میں ایچ آئی وی وائرس سب سے زیادہ ہے۔ جہاں ہر سوافراد میں سے اڑتیس افراد اس کا شکار ہیں۔ یہاں سب سے حیران کرنے والی بات جو سامنے آئی ہے، وہ پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے حوالہ سے ہے۔ اس وقت اسلام آباد میں چھے ہزار افراد اس وائرس کے گھیرے میں ہیں۔

دنیا بھر میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد اس وقت چھتیس اعشاریہ سات ملین ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت ایچ آئی وی سے متاثر ہ افراد کی تعداد ایک لاکھ تینتیس ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

پاکستان کی تقریباً ساٹھ فیصد آبادی نشے کی لت میں پڑی ہوئی ہے۔ نشے کے عادی افراد میں ایچ آئی وی وائرس کا تناسب اڑتیس اعشاریہ پانچ، مرد ہم جنس پرستوں میں پانچ اعشاریہ دو اور جسم فروش خواتین میں اس وائرس کا تناسب دو اعشاریہ تین فیصد ہے۔

ایڈز کیسے پھیلتا ہے اور اس کی علامات کیا ہیں؟ اس بارے میں عوام کی آگاہی بے حد ضروری ہے۔ یہ وائرس کیسے دوسروں تک منتقل ہوتا ہے؟ اس کا سب سے بڑا ذریعہ جسمانی رطوبت یعنی (باڈی فلوئیڈ)،استعمال شدہ سرنج، غیر مناسب یا لیبارٹری سے غیر تصدیق شدہ بلڈ بنک اور ایچ آئی وی وائرس کے شکار انسان سے جسمانی تعلقات ہے۔

ایچ آئی وی یعنی ہیومن ایمینیو ڈیفشنسی وائرس ہوسٹ خلیہ میں داخل ہوکر (آر این اے) کو ڈی این اے میں تبدیل کرکے ’’وائٹ بلڈ سیلز‘‘ یعنی سفید خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔ سفید خلیات جن پر نظامِ قوتِ مدافعت کی حفاظت کی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہی خلیات انسانی جسم کو کئی بیماریوں سے بچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایچ آئی وی وائرس ہوسٹ سیل میں رہ کر اپنی تعداد میں اضافہ کرکے جسم کے باقی خلیات پر زبردست حملہ سے ان کی قوت کو مزید کم کردیتا ہے۔ انسانی جسم ایک ہزار سفید خلیات پر مشتمل ہوتا ہے، اور جب یہ خلیات اس وائرس کے شکار سے دو سو کی تعداد میں پہنچ جائیں، تو پھر اس انسان میں ایڈز کا مرض تشخیص کر دیا جاتا ہے۔ یک دم اس مرض کا سامنا انسان کے لئے انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ لیکن جو انسان حقیقت کو تسلیم کرکے طبّی اداروں سے رجوع کرے، وہ با آسانی اس کا علاج شروع کرکے نئی زندگی کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف شرم و حیا کے چکروں میں پڑنے سے اور مذکورہ مرض بارے آگاہی نہ ہونے کی صورت میں انسان سسک سسک کر موت کے منھ میں چلا جاتا ہے۔ ایڈز کے شکار افراد کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، ہاتھ ملانے اور کھانا کھانے سے یہ مرض دوسرے تک منتقل نہیں ہوتا۔عام انسانوں کا ایڈز سے متاثرہ افراد کے ساتھ امتیازی، غیر مناسب اور نفرت بھرا رویہ دیکھنے میں آیا ہے، جس میں تبدیلی لازم ہے۔ ہمارے ان متاثرہ افراد کے ساتھ تعلقات خوش اسلوب اور دوستانہ ہونے چاہئیں، تاکہ ان کی جینے اور اچھی زندگی بسر کرنے کی امید برقرار رہے۔

ایچ آئی وی یعنی ہیومن ایمینیو ڈیفشنسی وائرس ہوسٹ خلیہ میں داخل ہوکر (آر این اے) کو ڈی این اے میں تبدیل کرکے ’’وائٹ بلڈ سیلز‘‘ یعنی سفید خلیوں پر حملہ کرتا ہے۔ سفید خلیات جن پر نظامِ قوتِ مدافعت کی حفاظت کی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے، یہی خلیات انسانی جسم کو کئی بیماریوں سے بچانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایچ آئی وی وائرس ہوسٹ سیل میں رہ کر اپنی تعداد میں اضافہ کرکے جسم کے باقی خلیات پر زبردست حملہ سے ان کی قوت کو مزید کم کردیتا ہے۔ انسانی جسم ایک ہزار سفید خلیات پر مشتمل ہوتا ہے، اور جب یہ خلیات اس وائرس کے شکار سے دو سو کی تعداد میں پہنچ جائیں، تو پھر اس انسان میں ایڈز کا مرض تشخیص کر دیا جاتا ہے۔

ایچ آئی وی وائرس کا علاج صوبے کے تمام بڑے ہسپتالوں میں مفت کیا جارہا ہے۔ اس علاج کو ’’اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی‘‘ کہا جاتا ہے۔اس علاج کے کرنے سے متاثرہ شخص عام انسان کی طرح زندگی گزار سکتا ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارے ’’یو این ایڈ‘‘ نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان میں اس مسئلہ پر جلد سے جلد قابو نہ پایا گیا تو تقریباً چار پانچ سال بعد پاکستان افریقہ جیسے ملک کے برابر ا ٓجائے گا، جو اس وقت دنیا بھر میں سب سے زیادہ ایڈز سے متاثر ہیں اور پھر اس وائرس پر قابو پانا اتنہائی مشکل ہوگا۔