عدمِ اعتماد کا شور اٹھ گیا ہے۔ اس کا نتیجہ کیا ہوگا……؟
قارئین! ہم جب بچے تھے، تو دیہات میں عشا کے وقت ایک کھیل ہوتا تھا جس کو ہم ’’سور پلے‘‘ کہتے تھے…… یعنی ’’سوار اور اتار۔‘‘ دو گروپ ہوتے تھے۔ ٹاس ہوتا تھا، جو ٹیم ٹاس جیت جاتی، وہ دوسری ٹیم والوں کی پیٹھ پر سوار ہوجاتی۔ اس کے بعد گاؤں کے حجروں کا چکر لگایا جاتا، وہاں بڑے بزرگ بیٹھے ہوتے، تو ایک بندہ جو اُن کے ساتھ چلتا جاتا، وہ ان بزرگوں سے پوچھتا: ’’سور دے کہ پلے؟‘‘ وہ اگر کہتے کہ ’’پلے‘‘ تو یوں سوار ٹیم نیچے آتی اور پیدل ٹیم والے ان کی پیٹھ پر سوار ہوجاتے۔ کبھی کبھار اگر بزرگ کہتے کہ ’’سوارہ دی پی سوارہ وی‘‘ (یعنی جو ٹیم سوار ہے وہ سوار ہی رہے) تو دونوں ٹیمیں اُسی حالت میں دوسرے حجرے چلی جاتیں۔
اس کھیل میں ایک بزرگ کو مَیں نے کئی بار نوٹ کیا۔ وہ کبھی اس باب میں نہ بولتا۔ ایک بار مَیں نے اس سے پوچھا: ’’بابا آپ نے کبھی ’’پلے‘‘ کہا اور نہ ’’سوارہ دی پی سوارہ وی‘‘ کہا۔ ایسا کیوں ہے؟ اس نے جواباً کہا: ’’اگر سوار ٹیم، سوار رہے…… یا وہ نیچے آئے اور دوسری ٹیم سوار ہو، تو مجھے اس سے کیا فایدہ ہوگا؟‘‘
آج بیٹھے بیٹھے ویسے ہی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ سوار نیچے آجائیں اور پیدل سوار ہوں، تو عوام کو اس سے کیا فایدہ ملے گا؟ آج تک تو ایسا کچھ نہیں ملا۔ البتہ کھیلنے والوں کو ملتا رہا ہے۔
اب یہ بات کہ وہ آقا کیوں اس میں ’’انوالو‘‘ ہوتے ہیں؟ تو ہر ملک اور خطے کے اپنے احوال ہوتے ہیں۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے جس کی ’’جیوسٹریٹجک‘‘ اور اب ’’جیو اکنامکس‘‘ حیثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ روزِ اول سے اس کا بھارت کے ساتھ تنازع رہا ہے۔ چوں کہ مغربی سرحد پر واقع افغانستان میں ہمیشہ ’’پرو انڈیا‘‘ حکم ران رہے ہیں…… لہٰذا پاکستان ہمیشہ ’’تھریٹ‘‘ میں رہا ہے۔ لہٰذا ’’آقا حضرات‘‘ سیاست سے کُلی لاتعلق نہیں ہوسکتے کہ سیاست دانوں میں تو کئی ایک پر آج بھی تہمت ہے کہ وہ ہمسایوں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ سو ’’آقاؤں‘‘ نے ان سب پر نظر بھی رکھنا ہوتی ہے…… اور وقت آنے پر ان کو کنٹرول کرنا بھی ہوتا ہے۔ ایسا بھی نہیں کہ ان سیاست دانوں کو اس پر سنجیدہ اعتراض ہوتا ہے…… وہ تو بس اقتدار میں اپنا حصہ محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
جہاں تک ’’پروگرام‘‘ کی بات ہے، تو کسی بھی پارٹی کے پاس کوئی سنجیدہ پروگرام نہیں ہے…… بس وقتی طور پر گیم چلانا ہوتا ہے، جو آج تک چلتا آ رہا ہے۔
اس تمام تر صورتِ حال میں چھوٹی پارٹیوں کو تو ایک سائیڈ پر رکھیں…… جو بڑی پارٹیاں ہیں اور حکومت میں آسکتی ہیں، ان سے پوچھیں کہ تمہارے پاس کوئی ’’تھنک ٹینک‘‘ ہے، کوئی ’’شیڈو کیبنٹ‘‘ ہے؟ جواب ندارد۔ وجہ یہی ہے کہ کوئی ’’سنجیدہ‘‘ نہیں۔ سیاست اب خدمت یا عبادت نہیں رہی…… بلکہ ایک گیم بن گئی ہے…… اور وہ بھی مفادات کا گیم۔ تبھی تو وقت آنے پر الیکٹ ایبلز کو آگے لے آتے ہیں…… یا پھر باہر سے کچھ درآمد کردیتے ہیں۔ اب درآمدشدہ افراد بھی خارجی ہیں اور الیکٹ ایبلز تو ہر پارٹی میں مہمان اداکار کی شکل میں آتے ہیں، تو ایسے میں تھنک ٹینک یا شیڈو کیبنٹ کا کیا تصور ہے؟
اور جہاں تک عوام کا تعلق ہے، تو ان کو ورغلانے کے کئی ایک طریقے ہیں…… جن میں وقت کے ساتھ ساتھ ترمیم و اضافہ کیا جاتا ہے…… یہ ترمیم و اضافہ صرف باتوں کی حد تک ہوتا ہے۔
بہر تقدیر وہ سیاست جو انسانوں میں خدمتِ خلق کے حوالے سے اور مسلمانوں میں عبادت کے حوالے سے متعارف تھی…… اب خالص مادی اور مفاداتی چیز بن گئی ہے۔ مفادات جب غالب آتے ہیں، تو اس کے ساتھ دروغ گوئی، چال بازی، فریب، مکاری اور دھوکا دہی آہی جاتی ہے۔ بالفاظ دیگر اس میں منافقت گھر کرلیتی ہے…… اور متعلقہ لوگ اس میں گر جاتے ہیں۔ وہ کسی شاعر نے کیا خوب کہا کہ
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوایف، تماش بینوں میں
اب ’’گھری ہوئی‘‘ کا مفہوم تو ظاہر ہے کہ طوایف ناچتی ہے…… اور لوگ اِرد گرد گھیرا ڈالے ہوتے ہیں…… لیکن یہاں تو ’’گری ہوئی ہے‘‘ اصطلاح صحیح لگتی ہے کہ طوایف اگر تماش بینوں کے دایرے کے اندر ناچتے ہوئے گر جائے…… جب ان سب کے جذبات میں ہیجان پیدا ہوا ہوتا ہے، تو یقیناً بظاہر اسے اٹھانے کے لیے سارے ہلہ بولیں گے اور پھر طوایف کا جو حشر ہوگا…… وہ بیان سے باہر ہے۔ یہی حالت ہماری سیاست کی ہے۔
………………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔
میرے وطن کی سیاست
