حزبِ اختلاف نے عدمِ اعتماد کی تحریک کیا جمع کرائی کہ ملکی سیاست میں ہلچل سی مچ گئی۔ سیاسی ملاقاتوں میں یک دم اضافہ ہوگیا۔ روٹھے ہوؤں کو منانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میڈیا کے وارے نیارے ہوگئے۔ تجزیہ کاروں کا کار و بار چل پڑا۔ ایک مشہور صحافی اور اینکر 9 مہینے بعد ایک بار پھر پردے پر نظر آنے لگا…… جس سے صحافیوں میں کچھ جان سی آگئی۔ وگرنہ ہر حکومت کی طرح اس حکومت میں بھی میڈیا کی زبان بندی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی گئی۔ قوانین بنائے گئے اور جو پہلے سے بنے تھے، ان میں ترامیم کی گئیں۔ ہر حوالے سے یہ کوشش کی گئی کہ ’’کوئی بھی سر اُٹھا کر نہ چلے‘‘ اور نہ کوئی زبان حکومت مخالف لفظ ادا ہی کرے۔
ٹھیک 3 سال سے متواتر لوگ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ حکومت نااہل ہے اور اپوزیشن نااہل ترین۔ کیوں کہ کوئی ہلچل دیکھنے کو نہ ملی۔ اب مگر جب سے اپوزیشن نے عدمِ اعتماد کا پتّا پھینکا ہے، تو باسی کڑی میں اُبال سا آگیا ہے۔ اس اُبال کا وزیرِ اعظم کی حالیہ تقاریر سے صاف پتا چلتا ہے۔
دوسری طرف میڈیا سے وابستہ لوگوں کے لیے تو یہ چائے کی پیالی میں طوفان بپا کرنے والا ماحول بن گیا ہے۔
عدمِ اعتماد تحریک کے لیے وقت کا تعین موزوں ہے یا نہیں، عدمِ اعتماد کی یہ تحریک کامیاب بھی ہوتی ہے یا نہیں، واقعی یہ امریکہ وغیرہ کی سازش ہے یا اپنوں کی بے رخی ہے؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات، حکومت اور اپوزیشن کے اندھے سیاسی مقلدوں کے لیے بہتر ہی ہیں۔ بطورِ عام پاکستانی…… مجھے تو اس پرخوشی ہے کہ کم از کم اپوزیشن پارٹیاں بیدار ہوگئی ہیں…… جس کا فوری طور پر عوام کو فایدہ یہ ملا کہ تیل کی قیمتوں میں کمی آگئی۔ حالاں کہ عالمی مارکیٹ میں روس یوکراین جنگ کی بدولت ایندھن کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
اس طرح بجلی کی قیمتوں میں کمی کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ یہ بھی نوید سنائی گئی ہے کہ بجٹ تک قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ حکومت اس کے لیے کوئی بھی تاویل پیش کرے…… مگر بظاہر وجہ اس کی اپوزیشن کی انگڑائی ہی ہے…… جو بقول اپوزیشن راہنماؤں کے ’’ادارے اب نیوٹرل ہوچکے ہیں۔‘‘
اگر واقعی ایسا ہے، تو یہ مبینہ طور پر اعتراف ہی سمجھا جائے گا کہ وہ ادارے جن کا کام ملکی دفاع ہے…… کیا وہ واقعی سیاسی گتھیاں سلجھانے میں مصروف تھے؟
ہم یہ نہیں کہتے کہ اپوزیشن والے دودھ کے دھلے ہیں…… اور اگر آج عمران خان وزیراعظم نہ رہے، تو پاکستان پر واجب الادا قرضوں میں کمی آجائے گی…… یا مہنگائی کا بے قابو جن واپس بوتل میں بند ہوجائے گا…… یا جن کی کمر توڑ دی گئی تھی وہ دہشت گرد دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہیں گے…… یا عالمی سطح پر ملک کو درپیش سنگین تر چیلنجوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔
ایک بات تو یہ کہ موجودہ اپوزیشن میں سب کے سب آزمودہ گھوڑے ہیں…… جن کی کارکردگی کے حوالے سے عوام بخوبی آگاہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ جو بھی حکم ران آیا ہے…… اس نے پہلے سے موجود مسایل میں کمی کے بجائے اضافہ ہی کیا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے…… لیکن باوجود اس کے عدمِ اعتماد چوں کہ جمہوری نظام کا حصہ ہے…… اس لیے اپوزیشن پارٹیوں کا حق ہے کہ وہ اپنا حق استعمال کریں۔ کون جیتا کون ہارا……؟ یہ الگ اور بعد کی بحث ہے۔ سرِدست اتنا ہی کافی ہے کہ حکومت کو یہ اندازہ ہو کہ وہ سہارے الگ یا کم زور ہوچکے ہیں…… جن کی بدولت عمران خان کی طبیعت میں آمرانہ خصلتوں کا اضافہ ہوچکا تھا۔
قارئین! اگر آپ کو یقین نہیں آرہا، تو اس سے اندازہ لگالیں کہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد عمران خان پہلی مرتبہ ایم کیو ایم کے مرکز ’’بہادر آباد‘‘ بھی جا پہنچے…… تاکہ اتحادی ممبران کی حمایت حاصل کرسکیں۔
میرا خیال ہے کہ اگر یہ عدمِ اعتماد کی تحریک نہ اُٹھتی، تو وزیراعظم یہ دورہ کرنے کی تکلیف بھی نہ اٹھاتے…… جیسا کہ موصوف کی ’’طبیعت‘‘ ہے…… لیکن جب بات کرسی بچانے کی آئی، تو کراچی کے پرانے ’’مبینہ قاتل جماعت ایم کیو ایم‘‘ کے لوگ ہوں یا ہر آمر کے وفادار گجرات کے چودھری برادران، ’’نہ جھکنے اور نہ بکنے والا کپتان‘‘ ہر در پر حاضر ہوا……!
قارئین! یہی تو سیاست کی خوب صورتی ہے کہ ہر کسی سے بات کی جائے…… اور یہی حق بلاشبہ عمران خان کا بھی ہے۔ بس ان سے ایک درخواست ہے کہ ’’برائے مہربانی جلسوں میں وہ زبان اور الفاظ استعمال نہ کریں…… جو کسی مہذب آدمی کے شایانِ شان نہ ہوں…… اور نہ کوئی ایسی بات کریں…… جس سے ملک کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہو۔‘‘
باقی ہم فی الحال اسی بات پر بے حد خوش ہیں کہ ملکی سیاست میں کچھ تو رونق پیدا ہوگئی۔
…………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔