صوبہ خیبر پختونخوا میں تین سیاست دانوں کو میں کامیاب مانتا ہوں۔ باقی سیاست کو جاننے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ باقی کسی میں سیاسی نبض شناسی اور ہواؤں کا رُخ جاننے کی اہلیت ہے نہ صلاحیت۔ یہ تین سیاست دان مولانا فضل رحمان، اکرم درانی اور پرویز خٹک صاحب ہیں۔
جہاں صوبے میں اکرم درانی اور مولانا صاحب ایک ہی پارٹی میں ہیں اور سیاسی ہواؤں کا رُخ موڑنے کی صلاحیت اور اہلیت سے لیس ہیں…… وہاں امامِ سیاست پرویز خٹک ان کا ایسا توڑ ہے کہ دونوں حیران رہ جاتے ہیں کہ خٹک کی چالوں کو کیسے کاؤنٹر کیا جائے؟
یقین مانیں مَیں سیاست کو بہت قریب، دل جمعی اور شوق سے مانیٹر کرتا ہوں۔صوبے میں اکرم درانی اور مولانا کے لیول کے سیاست دان ہزارہ میں ہیں، نہ ملاکنڈ میں، نہ جنوبی اضلاع اور نہ وادیِ پشاور میں ہی ہیں…… اگر خٹک ان کے مقابلے میں نہ ہو۔
عوامی نیشنل پارٹی جو پختون وطن کی اہم جماعت ہے اور صلاحیت بھی رکھتی ہے…… لیکن ان میں نبض شناس سیاسی لیڈر ولی خان کی موت کے بعد پیدا نہ ہوسکا۔ ایمل ولی خان پُرجوش اور ووکل آدمی ہیں، لیکن ابھی تک وہ گرفت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں رہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آیندہ الیکشن میں صوبے میں مولانا کی گرفت وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ اس وقت مولانا کو جو سیٹیں ملی ہیں، ان کی بنیادی وجہ صوبے میں قیادت کا خلا ہے۔ خٹک صاحب کو بڑی عیاری کے ساتھ صوبے کی سیاست سے آوٹ کیا گیا تھا…… جس کا نتیجہ ہم سب نے دیکھا۔ مہنگائی اور بیڈ گورننس بھی اس کی وجوہات ہیں، لیکن چوں کہ صوبے میں تحریک انصاف کا ایسا کسٹوڈین موجود نہیں تھا جو پارٹی میں لانگ ٹرم سٹیک رکھتا ہوں، یا سٹیک کا متمنی ہوں۔ نہ ہی خٹک کے علاوہ کسی میں ’’سیاسی مشرتوب‘‘ کی صلاحیت ہی ہے۔ اس لیے خالی میدان سے مولانا صاحب اور امامِ سیاست اکرم درانی نے فایدہ اٹھایا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔
قارئین، آپ نے دیکھا ہوگا کہ 2013ء میں ایم ایم اے کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کے قیام کا مقصد مذہبی جماعتوں کے ووٹ بینک کو یکجا کرنا تھا۔ اس کے قیام میں اکرم درانی، صابر حسین، لاہور کے فرید پراچہ اور سراج الحق کی کاوشیں تخصیص کے ساتھ شامل تھیں۔ اس کے قیام کے بعد صوبے میں انہوں نے مضبوط بیانیے کے ساتھ میدان مارنا تھا، لیکن ’’خٹک سٹرٹیجی‘‘ نے اکرم درانی کو بنوں تک محدود کردیا۔ عمران خان کو بنوں سے لڑایا۔ ان حالات میں درانی ڈیفنس موڈ میں چلا گیا۔ حتی کہ عمران خان کو بلاوا بھیجا کہ پی کے 88 سیٹ ہمیں دیں۔ قومی اسمبلی پر آپ کے لیے میدان خالی چھوڑتا ہوں، لیکن خٹک صاحب کا پلان تو اس کو بنوں میں محدود کرنا تھا، وہ نہیں مانے اور وہی ہوا کہ درانی کو صوبے کے باقی علاقوں میں ایم ایم اے کو سرگرم کرنے کا وقت نہیں ملا اور ایم ایم اے صرف پانچ یا چھے جنرل سیٹوں تک محدود رہی۔
بعض لوگ الزام لگاتے ہیں کہ خٹک بلیک میلنگ کر رہا ہے۔ دراصل خٹک نے 2011ء میں ’’ایری گیشن منسٹری‘‘ سے استعفا دیا تھا عمران کی خاطر۔ خٹک، ایچی سن کالج کے دور سے چوہدری نثار اور عمران کا دوست ہے۔ خٹک کی شادی میں بھی چوہدری نثار اور خان صاحب کی تصویریں نمایاں ہیں۔ خٹک نے منسٹری چھوڑ کر عمران کا ساتھ دیا۔ الیکشن کبھی کنفرم نہیں ہوتے کہ میں جیتوں گا یا ہاروں گا…… نہ اس چیز کی سو فیصد گارنٹی تھی کہ صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت آئے گی۔نہ یہ سو فیصد کنفرم تھا کہ خٹک چیف منسٹر بنے گا……لیکن اس نے نہ صرف منسٹری کو لات ماری بلکہ صوبے کے اہم ترین لوگوں کو پارٹی میں شامل بھی کرایا اور 2013ء کا الیکشن بھی جیت لیا۔ صوبے میں پارٹی کو سادہ اکثریت بھی نہیں ملی تھی…… لیکن خٹک نے آزاد ارکان کی منتیں کیں۔ شہرام ترکئی کی پارٹی صوابی جمہوری اتحاد کی چھے نشستوں کو پارٹی میں ضم کرایا اور تعداد 56 تک پہنچائی۔ سادہ اکثریت کے لیے 64 نشستیں درکار تھیں۔ انتہائی مشکل حالات میں خٹک نے نہ صرف پانچ سال پورے کیے…… بلکہ ایسی کارکردگی دکھائی کہ عمران خان دو تہائی اکثریت سے صوبے میں جیت گیا اور وفاق کو 43 قومی نشستیں دیں۔ خٹک کے دور میں صرف چھے وزارتیں تحریک انصاف کے پاس تھیں، باقی حلیف جماعتوں کے پاس تھیں۔ وفاق میں مخالفین کی حکومت تھی مگر خٹک نے ڈیلیور کیا۔ ان پانچ سالوں میں مضبوط لوگوں کو پارٹی میں شامل کرایا گیااور تحریکِ انصاف کے ووٹ بینک میں اضافہ ہوا۔ یہ سب خٹک کی جادوئی سیاست تھی، اس کا سیاسی کمال تھا۔ بے شک عمران برینڈ بھی تھا، لیکن اگر یہ حکومت کم زور ہوتی، یا ڈیلیور نہ کر پاتی، یا خٹک مضبوط لوگوں کو پارٹی میں شامل نہ کراتا، تو وفاق میں اور اس صوبے میں حکومت ممکن نہ تھی۔ یہ خٹک پالیسی تھی کہ پشاور میٹروپولیٹن میں میٹرو بنی۔ آج بی آر ٹی وادیِ پشاور کے لیے صوبے کے لیے اور پورے ملک کے لیے فخر کا باعث ہے۔ روزانہ سوا دو لاکھ لوگ اس میں سفر کرتے ہیں۔
عمران خان اور پی ٹی آئی پر دی گریٹ خٹک کے احسانات ہیں۔ ان احسانات کا بدلہ دینا چاہیے۔خٹک جب اچھا کھیلے گا، تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ خٹک اچھا کھیلا! سب یہ کہیں گے کہ عمران اچھا کھیلا، پی ٹی آئی اچھی کھیلی۔ خٹک صاحب کی مہارت، صلاحیت اور قابلیت کا پاکستان گواہ ہے۔ تمام پارٹیاں اس کو لینے کے درپے ہیں۔ خٹک کے لیے مسئلہ نہیں، مسئلہ پی ٹی آئی کو ہے…… جس کے پاس اکرم درانی اور مولانا کے توڑ کا بندہ نہیں۔ پرسوں اگر خٹک نے صاف صاف باتیں کیں، صوبے کے حقوق کی باتیں کیں، تو ہمیں اس پر فخر کرنا چاہیے۔ جو بھی میرے حقوق کی بات کرے اور میں اسے گالیاں دوں، تو سمجھو کہ مجھ سے زیادہ بے حس کوئی نہیں۔
خٹک صاحب، تم جیو ہزاروں سال!
………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔