مالک کے آگے اور گھوڑے کے پیچھے سے گزرنے میں انسان بہت کم فائدے میں رہتا ہے۔ مالک کام اور گھوڑا لات لگائے بغیر نہیں چھوڑتا۔
ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ہم جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ ہم نہ تو جیتنے والے کے پاس جاسکتے ہیں اور نہ ہارنے والے کے پاس۔ جیتنے والا کہتا ہے میری حکومت نہیں۔ مَیں کیا کروں……؟
ہارنے والا کہتا ہے۔ مَیں جیتا ہی نہیں…… مَیں کیا کروں……؟
دراصل دونوں جیتے ہوئے ہیں۔ ہارے صرف عوام ہیں۔ نیچے والا حلقہ شاہ جی بیچ کر اُوپر سے جیت گئے اور اوپر والا حلقہ میاں جی بیچ کر نیچے سے جیت گئے۔
سیاسی احترام بھی نرالا ہے…… جہاں بزرگوں کی تکریم کے بجائے بزرگوں کو ہرانے کے لیے شیر اور تیر اکھٹے ہو جاتے ہیں۔دونوں سے کوئی امید بھی نہیں لگائی جاسکتی۔ کیوں کہ دونوں انسانوں کوجان سے مارنے کے لیے مشہور ہیں۔ شاہ جی نے ایسی سیاست متعارف کروائی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔ ہر قوم اور قبیلے سے رشتہ داری اور خاندانی وابستگی کی ڈراما بازی، ہر فرد کا نمبر محفوظ کرنے کی شعبدہ بازی، ہر جعلی سکیم میں حصہ، ہر بھرتی پر جیب گرم، ہر دوسرے فردسے کاروباری شراکت داری،ہر سڑک میں جعل سازی، ہر پل میں بے ضابطگی، اقربا پروری، رشوت خوانی، جعلی سازی اور میرٹ کا استحصال قابل ذکر ہیں۔ جڑی بوٹی کی سمگلنگ، جنگلات کا قتل عام، ٹھیکا سسٹم کی بھر مار اور واچروں کی یلغار بھی لاثانی رہی۔ جہاں سابقہ سپیکر نے ووٹ لینے کا ریکارڈ قائم کیا…… وہاں پر تاریخی مینڈیٹ کے باوجود ایک حلقے سے راہِ فرار اختیار کرنے کا ریکارڈ بھی انہی کے سر سجتا ہے۔ اپنے دور میں محکموں کوآپس میں لڑوایا، تعلیم یافتہ نوجوانوں کو ٹرخایا، ووٹروں کوبلایا اور اسمبلی گیٹ پر پٹوایا، سیاسی حریفوں کو تھانوں میں بلوایا، اپنے بنیادی حقوق کے لیے احتجاج کرنے والوں پر لاٹھی چارج کروایا اورآفاتِ سماوی کا پیسا جی بھر کرکھایا۔
عوام بھارتی گولہ باری سے مرتے رہے اور ایک بنکر تک نہ بنوایا۔ سارا پیسا کہاں گیا…… اس کا جواب کون دے گا؟
نیلم میں آفاتِ سماوی کا پیسا کون کھا گیا؟ احساس پروگرام کی رقم سرکاری ملازمین ہڑپ کر گئے۔ اس کی نہ تو ریکوری ہوئی…… نہ کچھ خبر، فائرنگ سے شہید اور زخمی ہونے والوں کا معاوضہ کس نے ہڑپ لیا؟ لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کی امداد کدھر گئی؟ اس کا جواب تو یقینا مقتدرہ ہی دے سکتے ہیں۔
اپنے بچے عوام کے ٹیکسوں سے بنے محلات میں رکھے ہوئے اور ووٹروں کے بچے اس یخ بستہ سردی میں چھت کے بغیر رہ رہے ہیں…… اس کا ذمہ دار کون ہے؟
شاہ جی اور میاں جی نے نہ صرف پوری منصوبہ بندی سے پی ٹی آئی کو ہرایا بلکہ اپنا پنج سالہ بھی بھر پور انداز سے لگایا ہے۔ دونوں عوام کو یہ کہتے کہتے پانچ سال پیسے بنائیں گے کہ وہ حکومت میں نہیں ہیں۔ حالاں کہ ایم ایل اے فنڈ سے بہت سارے کام کروائے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ دونوں متذکرین کون سے غریب غربا میں سے ہیں……؟ اگر انہیں واقعی نیلم کی فکر ہو، تو اپنے ذاتی اکاونٹ سے کسی بھی وزیر سے زیادہ کام کروا سکتے ہیں۔
محترم میاں صاحب تو موروثی سیاست کی بدترین مثال ہیں اور شاہ جی کی پارٹی بھی موروثیت کے گرد گھومتی ہے۔ جب پارٹی ہی موروثیت پر چلے…… پھر کسی تبدیلی کی امید عبث ہے۔ اب تو لفظ تبدیلی سن کر بھی ڈر لگتا ہے۔ کیوں کہ تبدیلی کے نام پر جتنی تباہی مہنگائی خان لاچکا ہے، اس کے بعد شاید لوگ اپنے بچوں کا نام عمران خا ن رکھتے ہوئے بھی ڈرجائیں ۔
لیسوا، بکوالی، سالخلہ اور دیگر آفت زدہ علاقوں کے متاثرین کے سردی سے ٹھٹھرتے، بھوکے سے بلکتے، پاس سے تڑپتے بچے، خالی پیٹ سونے والی مائیں، بازار سے خالی ہاتھ واپس آتاسفید داڑھی والا ضعیف، کم زور، لاغر اور جھکی ہوئی کمر والا غمزدہ، بے بس، بے سہارا اور نااُمید باپ بچوں کے ساتھ آنکھیں نہیں ملا پاتا۔
پھٹا ہوا ٹینٹ جسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے دن میں کئی بار اکھاڑ دیتے ہیں، وہ گھرانے جو بھوک، پیاس اور سردی کی وجہ سے سو نہیں پاتے۔ عوام کے ٹیکسوں کے محلات میں سونے والے ایم ایل ایز کیا جانیں ان غریب، بے بس ، بے سہارا ، بے گھر اور بے سروسامان افراد کو رات کو بھو ک نہیں سونے دیتی۔ اگر آنکھ لگ بھی جائے، تو یخ بستہ سرد ہوا کی سائیں سائیں کی آواز انہیں جاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ بارش کا ہر قطرہ انہیں طوفاں دکھائی دیتا، برف کا ہر گالا انہیں گلیشیر کا پہاڑ دکھائی دیتا، بجلی کی گرج ان کے اوسان خطا کر دیتی، کیوں کہ یہ بے سروسامان، کھلے آسمان کے نیچے پھٹے ہوئے خیمے لگائے افراد کی ستم ظریفی اور بدحالی کی داستان بارش، برف اور بجلی کی کڑک سے جڑی ہوئی ہے۔
ہم صدر، وزیرِ اعظم، سپیکر اور وزرا پر غریبوں کے ٹیکسوں سے اربوں خرچ کرتے ہیں…… مگر غریب، محتاج بے گھر اور بے سہارا افراد جن کے ووٹوں اور ٹیکسوں سے ان وزیروں مشیروں کے خاندان عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں…… ان کے لیے دو وقت کی روٹی اور سر چھپانے کو چھت بھی مہیا کرنے کی توفیق نہیں ہوتی۔ اگر ہم صدر، وزیرِ اعظم اور سپیکر کے اخراجات کا تیسرا حصہ بھی مختص کرتے، تو یہ سب خاندان اس وقت دوبارہ آباد ہوچکے ہوتے۔
آفاتِ سماوی سے بڑھ کر بڑی آفت یہ سیاسی لوگ ہیں…… جن کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ یہ اللہ کی طرف سے انسانوں کی شکل میں ہم پر عذاب اور سزا کے طور پر نازل کیے گئے ہیں۔ حاجی، مفتی، میاں اور شاہ جی اپنے بچوں کوبکوالی، لیسوا، سالخلا اور دیگر متاثرہ علاقوں کے متاثرین خاندانوں کے ساتھ رکھیں، تو ان کو پتا چلے کہ غریب کس حال میں رہتا ہے!
یہ ووٹ کے لیے ہمارے بچوں کو گود میں اٹھا لیتے ہیں، ان کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں، ان کو پیار کرتے ہیں…… حتی کے غریب کے بچے کی بہتی ناک بھی مسکرا کر صاف کرتے ہیں…… مگر جیتنے کے بعد یہ بچے ان کی راہ دیکھتے دیکھتے تھک جاتے ہیں۔
محلات میں رہنے والے کبھی غریب یا اس کے مسائل کو نہیں سمجھ سکتے۔ سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اپنے خاندان کو ان متاثرین کے خیموں میں منتقل کرتے، شرماتے اور ہچکچاتے ہیں، تو ووٹ مانگتے شرم کیوں نہیں آتی؟
ستم ظریفی دیکھیں کہ سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اگر چاہیں، تو ان تمام متاثرین کو اپنے بنگلوں میں رہائش فراہم کرسکتے ہیں۔ ان کے محلات ان کے پیٹوں اور حرص کی طرح بہت وسیع ہیں جو بھرنے کا نام نہیں لیتے۔ اس میں کیا قباحت ہے…… کل متاثرہ خاندانوں کو سابقہ اور موجودہ ایم ایل ایز اور ٹکٹ ہولڈر رہائش فراہم کریں……مگر ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور۔
تسبیح پکڑ کر الیکشن مہم چلانے والوں کویہ خیمہ زن نظر نہیں آتے؟ جیتنے پر سجدے میں گرنے کا ناٹک کرنے والواں کو بھوک افلاس سے بلکتے اور سردی سے ٹھٹھرتے بچے نظر نہیں آتے؟ جیتنے کے لیے مزاروں پر چادریں چڑھانے، آتش بازی کرنے، محفلِ رقص و سرور سجانے، مٹھائیاں تقسیم کرنے والوں کو ان متاثرین کی ننگے سر مائیں، بیٹیاں اور بھوکے ننگے بچے نظر نہیں آتے؟ یہ بے حس، بے مروت، بے شرم اور بے ضمیر لوگوں کو کب احساسِ ندامت ہوگا؟ اللہ نے ان متاثرین سے ز مین بھی چھین لی…… ورنہ ان مصائب کا سامنا کرنے کے بجائے یہ شائد زمین میں ہی گھڑ جاتے۔ موجودہ دونوں ایم ایل ایز کواگر اب بھی نیلم کے ان بے بس متاثرین کا احساس نہیں ہوتا، تو پھر کبھی نہیں ہو گا۔
نیلم میں فاتحہ خوانی کی سیاست کافی مقبول ہے۔ شائد شاہ جی اور میاں جی ان متاثرین کو اس لیے نہ معاوضہ دلوا رہے نہ ان کے لیے مناسب رہائش اور جگہ کا انتظام کر رہے ہیں، کیوں کہ اگر یہ زندہ رہ گئے، تو الیکشن سے پہلے کسی کی فاتحہ خوانی کے بہانے انتخابی مہم کیسے چلائیں گے؟ حاجی، میاں، مفتی اور شاہ جی یہ بات آپ بخوبی جانتے ہیں کہ اقتدار کے دن بہت جلد گزر جاتے ہیں۔ عوام نے آپ کو عزت دی، رفعتیں دیں، اعتماد کیا، ووٹ دیا اور اسمبلیوں تک اس لیے نہیں پہنچایا ہے کہ غریب، مفلس، نادار اور بے سہارا افراد اس یخ بستہ سردی میں بھوکے پیٹ، ننگے سر آپ کی راہ تکتے تکتے اپنی بینائی اورگویائی سے بھی محروم ہوجائیں۔ متاثرین کی آہ اور بدعا سے بچیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ شہنشاہ، شہزادے اور شہزادیاں روکھی روٹی کھاتے اور فٹ پاتھوں پر سوتے دیکھے گئے ہیں۔
………………………………
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔