
وسیم علی حسرتؔ
پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مزدور کو مزدوری اس کا پسینا خشک ہونے سے پہلے دیا کرو۔ جب یہ حدیث دیکھتا ہوں، تو ذہن میں یہی خیال آتا ہے کہ یا تو ہم مسلمان نہیں اور یا شاید مزدور نہیں۔ کیوں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بات بھی ہوتی، تو شاید کسی کی امید کی کرن نہ بجھتی۔
قارئین، مَیں آج بات اُن مزدوروں کی کرنے جا رہا ہوں جنھیں ’’اساتذہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ سرکاری اداروں میں جب سٹاف کم پڑجاتا ہے، تو پھر کرایہ پر بندے بھرتی کیے جاتے ہیں، جن کے لیے انگریزی میں ’’وِزٹنگ لیکچرار‘‘ اور ’’ہائرڈ‘‘ جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں جب یہ بندے انٹرویو وغیرہ کے بعد لیے جاتے ہیں، تو ان کی تنخواہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو سیشن ختم ہونے پر ہی تنخواہ ملے گی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ بندے چھے سات مہینے کچھ کھائیں گے پئیں گے بھی کہ نہیں؟ یا اس پر ہی پیٹ بھریں گے کہ چلو بڑے ادارے میں پڑھاتے ہیں اور یہی کافی ہے۔ یہ بندے یہاں پر صرف ایک بڑے ادارے کے نام پر وقت گزاریں گے کیا؟ یہ لوگ جب یہاں پر پڑھاتے ہیں، تو اس کے ساتھ کسی اور جگہ پر بھی تو نوکری نہیں کرتے۔ کیوں کہ یہ تو بس یہی پر قید ہوجاتے ہیں۔
مَیں بات سب کی کر رہا ہوں، مگر بالخصوص سوات کے بڑے اداروں کی جن میں گورنمنٹ ڈگری کالج مینگورہ، ڈگری کالج کبل اور سوات کا سب سے بڑا ادارہ گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہانزیب کالج شامل ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔ اب ان میں جن بندوں کو ’’کرایہ‘‘ پر لیا گیا ہے، تو ان کو بھی یہی امید دلائی گئی ہے کہ 28 ہزار روپے فی مہینا کے حساب سے ان کو تنخواہ ملے گی، لیکن وہ بھی سیشن کے اختتام پر یعنی چھے سات مہینے بعد۔
قارئین، اس موقع پر مَیں ڈائریکٹوریٹ آف ہائیر ایجوکیشن خیبر پختون خوا اور کالج انتظامیہ سے پوچھتا ہوں کہ آپ کی تنخواہیں تو ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں، لیکن کیا آپ کی تنخواہیں صرف ایک مہینے کے لیے بھی کبھی بند ہوئی ہیں؟
چلیں، یہ بھی چھوڑئیے مگر یہ تو بتائیے کہ کون سا دکان دار ہوگا جو مذکورہ اساتذہ کو چھے سات مہینے کے لیے ادھار راشن دے گا؟
چلیں، یہ بھی جانے دیں……! مگر جو وعدہ آپ نے ان غریبوں کے ساتھ کیا تھا اور جو اُمید دلائی تھی، اس کے بارے میں ہی تو کچھ بتائیے کہ ان کو سیشن کے اختتام پر پیسے ملیں گے، مگر اب تو دس مہینے گزرنے کو ہیں، یعنی سال پورا ہونے والا ہے۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی ایک روپیا تک نہیں ملا۔ ہاں، اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ پہ تاریخ دیے جا رہے ہیں۔
قارئین، ایک مہربانی اور جو ان اساتذہ پر کی گئی ہے، وہ بھی دیکھتے جائیے کہ کورونا وبا کے دنوں میں جو چھٹیاں دی گئی تھیں، جن میں کالج بند تھے، تو ان دنوں کی ’’دیہاڑی‘‘ بھی مذکورہ غریب اساتذہ کو نہیں ملنے والی۔ تو کیا اُن دنوں یہ لوگ کسی اور ادارے سے منسلک تھے؟ یہ تو اُسی ادارے میں ہی تھے، مگر اب ادارہ بند ہوگیا، تو اس میں ان غریبوں کا کیا قصور ہے؟ ادارے تو سب بند تھے، اور کیا ادارہ کے دیگر ’’اعلا عہدے داروں‘‘ کی تنخواہ بھی بند کی گئی تھی؟
قارئین، آخر میں اپنی بات اس نکتہ ختم کروں گا کہ خدارا! یہ قصہ اب مختصر کیجیے۔ میری باتیں تلخ ضرور ہوں گی لیکن یہی سچ ہے۔ انصاف والوں کی حکومت ہے اور انصاف نامی شے دور دور تک نظر نہیں آرہی۔
خدارا، انصاف کیجیے!
موقوف ہے کیوں حشر پہ انصاف ہمارا
قصہ جو یہاں کا ہے، تو پھر طے بھی یہیں ہو
……………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔