چند ’’فیک فیس بک آئی ڈیز‘‘ سے جامعۂ بنوں کے متعلق کچھ چیزیں شیئر ہوئیں جو کئی روز سے بنوں سوشل میڈیا پر فلوٹ ہو رہی ہیں۔ شدید مصروفیت کی وجہ سے اس بحث سے دور رہا اور وقت نکال کر اس پر لکھنا پڑا۔ سوشل میڈیا پر فیک آئی ڈیز سے جو واٹس اَپ پیغامات فلوٹ ہو رہی ہیں، ان کا بغور جائزہ لیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے۔ فیک آدمی یا فیک آئی ڈی پر اعتبار کرنا اچھا نہیں۔ انہی آئی ڈیز نے بغیر تحقیق کے بنوں کے بہت سارے عزت داروں کی پگڑیاں اچھالیں۔ قانوناً ،اخلاقاً یا شرعاً ان کی یہ ذمہ داری نہیں جو وہ نبھا رہے ہیں۔ ان کے اپنے فرائض منصبی ہوں گے، وہی وہ نبھائیں، تو یہ ان کے دارین کے لیے اچھا ہوگا۔ ابھی کچھ دیر پہلے واٹس اَپ کے جو سکرین شاٹس کسی فیک آئی ڈی سے کسی ٹیچر کے خلاف پوسٹ ہوئے ہیں، ان کا جائزہ لیا۔ یقین سے کہتا ہوں کہ یہ بالکل فیک ہیں، یعنی اصل گفتگو بالکل ہی نہیں۔ لیکن جامعہ ہذا کے اندرونی ماحول کے بارے میں جتنا سنا ہے،وہ کچھ اچھا نہیں۔
بنوں یونیورسٹی 2005ء میں اکرم خان درانی نے منظور کرائی۔ جس کا مقصد بنوں کی عوام کو گھر کی دہلیز پر تعلیمی سہولت دینا تھا۔ بہت سارے سفید پوش اور غریب لوگ یہاں سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور یہ عمل جاری ہے۔ گویا مجموعی طور پر یہ اہلِ علاقہ کے لیے ایک عظیم پراجیکٹ ہے، لیکن یونیورسٹی اب خود ہمارے ہاتھ میں ہے، ہم کیسے اسے استعمال کرتے ہیں؟
پچھلے سال جب بنوں ٹاؤن شپ میں قائم اس کے مین کیمپس گیا، تو جامعہ کا وسیع و عریض رقبہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ واللہ! یہ بہت خوبصورت یونیورسٹی ہے، لیکن یہ ہماری یونیورسٹی کی بدقسمتی سمجھیں کہ اس کو پچھلے پندرہ سالوں میں مخلص انتظامیہ نہ مل سکی۔ اندرونی خبروں کے مطابق ان پندرہ سالوں میں یونیورسٹی میں صرف ’’عیاشیاں‘‘ ہوئیں۔ یہ عیاشیاں اخلاقی و مالی دونوں قسم کی ہیں۔ ایچ ای سی جو اتھارٹی ہے جامعات کی، اس کی جانچ پڑتال کا نظام بہت کمزور ہے۔ ورنہ شائد یہ دیہاتی یونیورسٹی جو ہم جیسے غریبوں کو تعلیم کی مدد سے غربت سے نکالنے کے لیے بنی تھی، اپنی منزل سے ہمکنار ہوتی، لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔
یونیورسٹی میں مرد و زن کا اختلاطی نظام ہے۔ بنوں کا معاشرہ بہت قدیم ہے۔ یہاں کا معاشرہ بند دیواروں اور کٹر پختون برقعوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں کی معاشرت میں نقاب جس میں آدھا چہرہ اور آنکھیں نظر آتی ہیں، قابلِ قبول نہیں۔ جامعہ کے قیام کے بعد حکومت بالخصوص یونیورسٹی انتظامیہ کی ذمہ داری تھی کہ اس قدیم معاشرے کی قدامت پسندی کا خیال رکھتی۔خصوصی ایس او پیز بناتی، لیکن کسی میں اتنی صلاحیت نہیں تھی کہ وہ ایسی چیزوں کا خیال رکھتا۔ حالاں کہ یونیورسٹی انتظامیہ کا سارا سیٹ اَپ مقامی رہا ہے۔
یونیورسٹی کے قیام کے بعد اکثر دوستوں کی محفلوں میں میری رائے ہوتی کہ یونیورسٹی اور میڈیکل کالج کے قیام کے بعد بنوں کا قدیم معاشرہ اپنی انفرادیت کھو دے گا اور وہی ہوا۔ بنوں میں اب بے پردہ اور نقاب پوش پردہ جس میں آدھا چہرہ دیکھا جا سکتا ہے، تقریباً ہر جگہ سڑکوں ،بازاروں میں عام ہے۔ اگرچہ یہ شرعی لحاظ سے درست ہے، لیکن اس سے بنوں کی انفرادیت ختم ہو گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر واویلا ہے کہ بنوں یونیورسٹی میں فلاں لڑکے لڑکی نے یہ کیا، وہ کیا۔ ٹیچر نے لڑکی کو بلیک میل کیا، وغیرہ۔ تو جناب! یہ تو پورے معاشرے میں عام ہے۔ یونیورسٹی میں جب مرد و زن ایک ساتھ بیٹھیں گے، اور عالمِ شباب بھی ہو۔ فیس بک، موبائل اور واٹس اَپ میسجز بھی ہوں، اوپر سے تھری جی اور فور جی کی برکات‘‘ ہوں، تو بولٹ تو پہلے سے ماری گئی ہے، اب صرف ٹریگر دبانا ہے۔ کسی بیچارے ٹیچر نے اگر دبا دیا، تو کیا ہوا؟
قارئین، بات دراصل یہ ہے کہ مخلوط نظامِ تعلیم کا میں شدید ترین مخالف ہوں۔ اس ملک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں منافق بستے ہیں۔ جب مرد و زن کا اختلاط منع ہے، تو اس منافق نظام میں کیوں زبردستی ہم پر مخلوط تعلیم مسلط کی گئی ہے؟ مَیں حیراں ہوں ان لوگوں پر جن کو معلوم ہے کہ مرد و زن کا ایک ساتھ بیٹھنا اور تعلیم کرنا شرعاًمنع ہے، تو کیوں ہماری بہنوں بیٹیوں کو فضول ڈگریوں کے لیے بھیڑیوں کے حوالے کیا جاتا ہے؟ پروفیشنل تعلیم جیسے میڈیکل کی تعلیم میں پھر بھی تھوڑی گنجائش نکل آتی ہے۔ یہ باقی تھرڈ کلاس فضول ڈگریوں کے لیے اپنی باپردہ بہنوں بیٹیوں کو کیوں Frustrated معاشرے کے بھیڑیوں کے حوالہ کیا جاتا ہے؟ یہ جنسی طور پر ایک بھوکا معاشرہ ہے۔ مَیں نے تحقیق کی ہے کہ پوری دنیا میں ہم پاکستانی سب سے زیادہ جنسی طور پر مایوس ہیں۔ یہاں کچھ حدود و قیود ہم نے اپنے اوپر مسلط کی ہیں جو کہ اچھی بات ہے، لیکن اندر سے ہم خالی ہیں،کھوکھلے ہیں۔مجھ سمیت ہر بندہ اس تاک میں ہے کہ کہیں موقع ملے اور ہوس کی بھوک مٹائی جائے۔
ہمیں چاہیے کہ جہاں غلطی ہو، اس کی نشان دہی کریں، لیکن مقصد اور نیت صاف ہو۔ فیک آئی ڈیز تو فیک ہوتی ہیں،جو باتیں فیک آئی ڈیز سے لوگ ڈر کی وجہ سے حقیقی آئی ڈیز سے نہیں کرسکتے، وہ ہمیں بتائیں۔ ہم اپنی شناخت کے ساتھ کریں گے۔لیکن بیماری کا یہ علاج نہیں۔ مخلوط تعلیم کے خلاف ہمیں اٹھنا چاہیے۔ صرف یونیورسٹی ہی نہیں ہمارا سارا تہذیبی اسٹرکچر اس وقت تباہ ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت کی عمارت جو حیا پر قائم تھی، اس زمین بوس ہے۔ مغرب کی تہذیبی ریلا ہمیں خس و خاشاک کی طرح بہا لے گیا ہے۔ ناامیدی کفر ہے، لیکن حالات کیسے ٹھیک ہوں گے ؟ کسی کو معلوم نہیں۔
بنوں یونیورسٹی کے اساتذہ کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندان اور اس غریب علاقہ کا خیال کریں، جو ہم سب کی شناخت ہے۔ یونیورسٹی کے بیشتر اساتذہ بہت اچھے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جن کو اپنی عزت راس نہیں آتی، ان کو چاہیے کہ وہ اپنے سابقہ وی سی کا انجام سامنے رکھیں۔
مخلوط تعلیم تباہی و بربادی ہے۔ بنوں کے عوام کو چاہیے کہ عام تعلیم اگر بچیوں کو کرانی ہے، تو بہتر ہے کہ فی میل کیمپس میں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں، وہی پڑھائیں۔ باقی اگر دنیا کے ساتھ چلنا ہے، تو پھر یہ گلے نہ کریں۔ پھر ماڈرن ہونا پڑے گا، اور اپنے قدیم نظام کی قربانی دینا ہوگی۔
وما علینا الا البلاغ!
…………………………………………….
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔