تیس اگست کو موضع کبل سوات کے ایک پبلک سکول کی چو تھی جما عت کا طالب علم سکول ہی کی بس کی چھت سے گر کر ’’کوما‘‘یعنی بے ہو شی میں چلا گیا اور تا حا ل زندگی اور موت کی کشمکش میں پڑا ہے۔
تحصیل کبل سوات میں پرائیویٹ سکولوں کی تعداد شائد درجنوں میں ہوگی، اُن میں کئی سول ٹرانسپورٹ کے لئے بس استعمال کرتے ہیں، چوں کہ بس میں زیادہ جگہ ہو تی ہے، تو اس حوالہ سے یہ منا فع بخش بھی ہوتی ہے۔ بچے بس کی چھت پر بھی بیٹھتے ہیں، جہاں کم اونچائی والی بجلی کے تاروں، درختوں وغیرہ کے ساتھ لگنے کا خطرہ بھی موجود ہوتا ہے۔ شومئی قسمت کہ یہ بچہ بھی تار کے سا تھ لگنے کی وجہ سے ہی گرا ہے۔ حا دثہ کی ذمہ دار چا ہے سکول انتظامیہ ہو، بس ڈرائیور ہو یا وہ بندہ جس نے تا ر کم اونچائی پر روڈ کے پا ر گزارا ہے، اب متاثرین میں بچے کے لواحقین، اس کا پورا خا ندان ہے، نہ کہ سکول انتظامیہ یا بس ڈرائیور۔
سکول بس کے علاوہ عام ہائی ایس کے پیچھے بھی چھے تا نو بندے لٹکے ہوئے چلتے ہیں۔ ٹریفک وارڈن کے کھڑے ہونے کی جگہ عموماً چوراہا ہوتی ہے، جہاں پہنچنے سے پہلے وہ سواریاں کم کرکے چالان سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔ کبھی کبھی میں ان بسوں اور فلائنگ کوچوں کی تصاویر لیتا ہوں اور لوگوں کو دکھاتا بھی ہوں، مگر پتا نہیں میرا درد کب دوسروں کو منتقل ہوگا؟
دوسری اہم بات یہ کہ ٹریفک وارڈن عام سواریوں کو چالان دیتا ہے، لیکن اگر طالب علم بسوں یا دیگر گاڑیوں کے پیچھے لٹکے رہیں، تو پھر وہ کچھ نہیں کہتا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ طالب علم کی جان عام آدمی سے کم قیمتی ہے؟

عام ہائی ایس کے پیچھے بھی چھے تا نو بندے لٹکے ہوئے چلتے ہیں۔ ٹریفک وارڈن کے کھڑے ہونے کی جگہ عموماً چوراہا ہوتی ہے، جہاں پہنچنے سے پہلے وہ سواریاں کم کرکے چالان سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں۔

اس حوالہ سے میرے ذہن میں کچھ سوالات اُٹھتے ہیں کہ کیا لائسنس اس با ت کی اجازت دیتا ہے کہ سکول بسوں کی چھت پر خصو صاً اور عام گاڑیوں کی چھتوں یا پائیدانوں پر عموماً کوئی بھی انسان اس خطرے کی حالت میں سفر کرے؟ اگر کسی کو کوئی حادثہ پیش آیا ہے، تو کیا کسی ڈرائیور کا ٹرائل کیا گیا ہے یا پھر اس کا لائسنس منسوخ کیا گیا ہے؟ عوام میں آگاہی مہم کتنا ضروری ہے؟ کیا حکومت اور انتظامیہ کی یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ ایسے خطروں کی نشاندہی کرے؟ کیا کہیں ایسا ’’سیل‘‘ قائم ہے جہاں کوئی بھی محب وطن اور محب انسانیت ثبوت کے سا تھ کسی بھی گاڑی کے خلاف شکا یت درج کرسکے؟ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کی انتظامیہ بچوں کے والدین کے ساتھ اس ضمن میں میٹنگز کرے۔ اٹھارہ سال سے کم لڑکوں کی ڈرائیونگ پر مکمل پابندی عائد کرے۔ پابندی تو ہے بھی لیکن نافذالعمل نہیں ہے اور بغیر ہیلمٹ کے بچوں کے والدین کو متنبہ کریں۔ اکثر ان بچوں کی ڈرائیونگ کچھ یوں ہوتی ہے کہ جب یہ حادثہ کا شکار ہوتے ہیں، تو پھر ان کی شکل پہچاننا مشکل ہوتی ہے۔
ایک تجویز میری یہ ہے کہ اگر کسی سکول بس سے انتظا میہ کی لا پروائی کی وجہ سے بچہ گرگیا، تو چاہئے تویہ کہ اُن کی رجسٹریشن فوراً منسوخ کی جائے۔ بسوں کی چھت پر سواری کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ کم اونچائی والے تاروں اور روڈ کے کنارے درختوں کی نکلی ہوئی شاخوں کو کا ٹ دیا جائے۔ پھر بھی اگر کسی شخص کی لاپروائی کی وجہ سے کم اونچائی والے تار نقصان کا سبب بنے، تو اِزالے کے طور پر اسی شخص کو سزا بھی دی جائے۔
بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ اُن کا تحفظ ہمارا فرض ہے۔ آئیں، ہم سب مل کر اپنا فرض نبھائیں۔ جہاں کہیں بھی ایسی کوتاہی یا کمی دیکھنے کو ملے، اس حوالہ سے بروقت کردار ادا کرنا چاہئے، ورنہ پھر مکافاتِ عمل کے طور پر ہمیں بھی ذکر شدہ کمی یا کوتاہی کی سزا مل سکتی ہے۔
بقول شکیب جلالی
دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں
مرے ہمسائے میں جب بھی کوئی دیوار گرے