وزیرِ اعظم عمران خان مسلسل ایسے اقدامات کا اعلان کررہے ہیں جو پاکستان کے غریب اور مفلس طبقات کو ریلیف پہنچانے کا باعث بنیں۔ ان کا ہر خطاب نچلے طبقے کو اوپر اٹھانے اورروسا ملک کو خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والے شہریوں کی مدد پر ابھارنے پر مشتمل ہوتا ہے۔اگروزیراعظم کے اعلان کردہ پروگراموں پر شفافیت سے عمل درآمد ہوگیا، تو بڑی حد تک محروم اور مجبور طبقات کو دووقت کی روٹی دستیاب ہوجائے گی۔
آٹے اور شوگر کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے نے حالیہ چند ماہ میں ملک میں زبردست معاشی اور سیاسی بحران پیدا کیا۔ حکومتی شخصیات پر اس بحران سے منافع کمانے کا الزام لگا۔ وزیراعظم عمران خان نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کی سربراہی میں تین رکنی انکوائری کمیٹی قائم کی، تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوسکے۔ رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے۔ کاروباری اداروں کے کرتا دھرتا نامی گرامی سیاست دانوں کے ناموں کی نشان دہی کی گئی جنہوں نے اس بحران سے مالی فائدہ اٹھایا۔ سرکاری اہلکاروں کی غفلت اور نااہلی کا بھی رپورٹ نے کچاچھٹا کھولا ہے۔ یہ رپورٹ کاروباری طبقات، سرکاری اور فیصلہ سازی کے اداروں میں جہاں پائی جانے والی خامیوں کی نشان دہی کرتی ہے، وہاں اس تلخ حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتی ہے کہ کس طرح بالادست طبقات باہمی گٹھ جوڑ سے غریبوں کا خون چوستے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون اور مددگار ہوتے ہیں۔
یہ رپورٹ کیا ہے؟ ایک ’’طلسمِ ہوش ربا‘‘ ہے۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق سرکاری خریداری کے طے شدہ ہدف کے مقابلے میں 35 فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ پاسکو نے مجموعی ضرورت کی 60 فیصد گندم کی خریداری کی۔ وزارتِ خوراک کی اقتصادی رابطہ کمیٹی سے جھوٹ بولا گیا کہ پاسکو نے مقررہ ہدف کو پورا کرلیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ حکومت کو سفارش کی گئی کہ گندم کے ذخیرے کی صورتِ حال مناسب ہے۔ لہٰذا برآمدات کی اجازت دی جانی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان کا ہی حوصلہ ہے کہ انہوں نے اس رپورٹ کو مشتہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ ماضی میں بننے والی متعدد انکوائری کمیٹیوں کی رپورٹوں کا آخری ٹھکانا کوڑا دان ہوا کرتا تھا۔ اچھی حکومت اور انتظامیہ کی فراہمی کے لیے یہ اقدام ناگزیر تھا۔ حکومت نے شفافیت کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ حالاں کہ ملک میں جاری کرونا وائرس اور دیگر حالات کی وجہ سے وہ اس رپورٹ کو سرد خانے کی نذر بھی کرسکتی تھی۔
تحقیقاتی رپورٹ مشتہر کرنے کا حکومت کو ایک فائدہ یہ بھی ضرور ہوگا کہ سرکاری اہلکاروں سمیت ہر خاص و عام کو یہ پیغام مل گیا ہوگا کہ احتساب سے کوئی بھی بالاتر نہیں۔
کرونا وائرس کی اگرچہ پاکستان پر یلغار ابھی تک بڑی دھیمی ہے، لیکن یک دم اضافے کا خوف سرپر منڈلا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کو حکومت نے آگاہ کیا ہے کہ پاکستان میں 50 ہزار تک ہلاکتوں کا امکان ہے۔
کرونا نے یہ حقیقت ایک بار پھر آشکار کی ہے کہ ہمارا صحت اور صفائی کا نظام تقریباًناکام ہوچکا ہے۔ عالم یہ ہے کہ جوہری ہتھیار رکھنے والے ملک کے پاس ضرورت کے مطابق وینٹی لیٹرتک دستیاب نہیں۔ سرکاری اسپتالوں کے پاس بمشکل 2200 وینٹی لیٹر پائے جاتے ہیں۔ٹیسٹنگ کٹس کا حال اور بھی پتلا ہے۔
بعض ہسپتالوں کے ڈاکٹر وں نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں کرونا ٹیسٹنگ لیباٹری بناکر دے دی گئی، لیکن عملے کے لیے حفاظتی ساز و سامان میسر نہیں۔ حکومت نے اب 3000 وینٹی لیٹرز کا آرڈر دیا ہے۔ ایک آدھ ہفتے میں 1200 وینٹی لیٹرز پاکستان پہنچ جانے کا امکان ہے۔ 150 کے قریب وینٹی لیٹر مختلف ممالک نے عطیہ کیے ہیں۔
ہوائی اڈوں پر نصب کرنے کے لیے 100 واک تھرو تھرمل گیٹ خریدے جا رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ محکمۂ صحت پر سرمایہ کاری کی گئی، اور نہ کسی نے اس کی طرف دھیان دیاکہ جو بجٹ اس محکمہ کو دیا جاتاہے کہ وہ کون کون ڈکار مارجاتاہے؟
گلگت بلتستان کا قومی منظر نامہ پر کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ حالاں کہ آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو کرونا مریضوں کی سب سے زیادہ تعداد یہاں پائی جاتی ہے ۔یہاں 286افراد کوقرنطینہ مراکز میں رکھاگیا ہے۔ دوافراد جاں بحق بھی ہوچکے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ ایران سے واپس آنے والے زائرین کی ایک بڑی تعداد مناسب طبی جانچ اور علاج کے بغیر گھروں کو لوٹ گئی جو وائرس کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کا باعث بنی۔ بلتستان ڈویژن کے ضلع نگر میں چار دیہاتوں کو ’’ریڈ زون‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ پاک فوج نے گلگت بلتستان میں دو کرونا ٹیسٹنگ لیبارٹریز عطیہ کی ہیں۔ گلگت بلتستان کی انتظامیہ اور فوج نے 60 قرنطینہ مراکز بھی قائم کیے ہیں۔ گلگت بلتستان کو مزید وسائل اور معاونت کی ضرورت ہے۔
آزادکشمیر کے دس لاکھ سے زائد شہری بیرونِ ملک بالخصوص برطانیہ، یورپ اور امریکہ میں آبادہیں جو کرونا کے بڑے مراکز بن چکے ہیں۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ وطن لوٹنے سے گریز کریں۔ پھر بھی گذشتہ چھے ہفتوں کے دوران تین ہزار سے زائد افراد بیرونِ ملک سے آزاد جموں و کشمیر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ حکام انہیں ڈھونڈ کر کرونا وائرس ٹیسٹ کرارہے ہیں۔ آزادکشمیر میں داخل ہونے کے تمام راستوں کو بند کردیا گیاہے۔ آمدو رفت میں شہریوں کو زبردست مشکلات کا سامنا ہے، لیکن غالباً ان ہی حفاظتی اور احتیاطی تدابیر کی وجہ سے آزاد کشمیر باقی علاقوں کی نسبت کم متاثرہوا۔ محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق ابھی تک بارہ ا فراد کے کرونا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں جب کہ ایک مریض تو صحت یاب بھی ہوچکا ہے۔
ایک طرف دنیا کو کرونا کی وبانے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور روزنہ ہزاروں لوگ لقمۂ اجل بن رہے ہیں۔ دوسری طرف مقبوضہ کشمیر ایک ایسا خطہ ہے جسے ان حالات میں بھی نت نئے سیاسی تجربات کا نشانہ بنایاگیا ہے۔ گذشتہ برس اگست میں بھارتی حکومت نے مقبوضہ جموں وکشمیر کا ریاست کا ’’اسٹیٹس‘‘ ختم کیا۔ اس کے آئین اور جھنڈے کو لپیٹ کر طاق میں رکھا۔ عوام کی مرضی اور منشا جانے بغیر ان کی صدیوں پرانی ریاست کو دوحصوں میں منقسم کردیا۔ انہیں مرکزی علاقے قراردے کر ان کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا۔
باخبر لوگوں کا کہناتھا کہ یہ سلسلہ تھمنے والا نہیں۔ اگلے مرحلے میں بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر کی مسلم شناخت پر وار کرنے کے لیے ایسے قوانین متعارف کرائے گی جو آباد ی کا تناسب بگاڑ نے میں اس کی مدد کریں گے۔
یکم اپریل کو دہلی سے جو اعلامیہ جاری ہوا، اس نے ان خدشات کو حقیقت کا رنگ دے دیا۔ شہریت کے کشمیر کے خصوصی قانون کو ختم کرکے اس کی جگہ ایک ایسا قانون نافذ کیا گیا، جو کشمیر کو رفتہ رفتہ فلسطین بنادے گا۔ جہاں مسلم تشخص اور تہذیب کی باتیں اب محض لوک گیتوں کا حصہ بن گیا ہے۔ نئے قانون نے 70 برسوں بعد بھارتی شہریوں کے لیے مقبوضہ کشمیر کاشہری بننے کے دروازے کھول دیے ہیں۔ سوائے نچلی سطح کی ملازمتوں کے یعنی درجۂ چہارم سے اوپر تمام ملازمتوں پر بھارت کے ایک ارب تیس کروڑ لوگ مقابلے کرنے کے اہل ہوں گے، جو بھارتی شہری پندرہ برس سے کشمیر میں بسلسلۂ روزگار مقام ہیں، انہیں نوکریوں، ووٹ اور جائیداد کی ملکیت کا حق خود بخود حاصل ہوگا۔ جو طلبہ مقامی بورڈ سے دسویں اور بارہویں جماعتوں کے امتحانات پاس کریں گے، وہ بھی کشمیری باشندے تسلیم کیے جائیں گے۔
کشمیریوں کے تشخص کے تابوت میں اس قانون کی منظوری نے آخری کیل ڈھونک دی ہے۔
……………………………………..
لفظونہ انتظامیہ کا لکھاری یا نیچے ہونے والی گفتگو سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اگر آپ بھی اپنی تحریر شائع کروانا چاہتے ہیں، تو اسے اپنی پاسپورٹ سائز تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بُک آئی ڈی اور اپنے مختصر تعارف کے ساتھ editorlafzuna@gmail.com یا amjadalisahaab@gmail.com پر اِی میل کر دیجیے۔ تحریر شائع کرنے کا فیصلہ ایڈیٹوریل بورڈ کرے گا۔