اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اظہارِ رائے کی آزادی کا قانون اس کی جمہوریت کا حسن ہے، جس کی بنیاد پر لوگ اپنی رائے کا برملا اظہار کر سکتے ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل19 اور-A 19 کے تحت ملنے والے یہ جمہوری حقوق بھی تاریخِ جمہوریت کی طرح اتار چھڑاؤ کا شکار رہے۔ عوام کی طرف سے بھی یہ قانون غفلت کا شکار رہا۔ اس کا عدم استعمال بھی عوام میں قوانین کی بے شعوری تھی اور ہے۔ مارشل لاز اور ایمرجنسیز کی وجہ سے یہ آرٹیکلز معطل ہوتے رہے اور ان کی بحالی بھی اپنی مرضی سے کی گئی۔ آمرانہ طرزِ حکمرانی سے پاکستان میں کون بے خبر ہوگا؟ جہاں عوام میڈیا اور وکلا تو کیا، ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو معذول کیا گیا۔ اپنی مرضی کے ججز پی سی او کے ذریعے لائے گئے، جن سے اپنی مرضی کے فیصلے کروائے گئے۔ کبھی ملک کو ڈوبنے سے بچانے کے نام پر عوام کو خاموش کروایا گیا، تو کبھی جمہوریت کو بچانے کے نام پر عوام گونگے بنے۔ عوام کے چھپ رہنے سے پتا نہیں کیوں دونوں کے مقاصد متصل رہے۔
آج کے دور کے تو کچھ الگ ہی انداز ہیں۔ اسے اکیسوی صدی کہا جاتا ہے۔ دنیا کی گذشتہ تاریخ کا موازنہ آج کے دور سے کیا جائے، تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر چیز برق رفتار ہے۔ اسی طرح مواصلاتی نظام میں ترقی کافی حیران کن ہے۔ پہلے خط وکتابت میں مہینوں لگتے تھے۔ آج اس سفر کو طے کرنے میں لمحے لگتے ہیں۔ اس مواصلاتی نظام کو سوشل میڈیا کہا جاتا ہے۔

دنیا کی گذشتہ تاریخ کا موازنہ آج کے دور سے کیا جائے، تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر چیز برق رفتار ہے۔ اسی طرح مواصلاتی نظام میں ترقی کافی حیران کن ہے۔ پہلے خط وکتابت میں مہینوں لگتے تھے۔ آج اس سفر کو طے کرنے میں لمحے لگتے ہیں۔

دنیا کی گذشتہ تاریخ کا موازنہ آج کے دور سے کیا جائے، تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہر چیز برق رفتار ہے۔ اسی طرح مواصلاتی نظام میں ترقی کافی حیران کن ہے۔ پہلے خط وکتابت میں مہینوں لگتے تھے۔ آج اس سفر کو طے کرنے میں لمحے لگتے ہیں۔

سوشل میڈیا نے آج کے زمانے میں انقلاب برپا کر رکھا ہے۔ اس میڈیم کے ذریعے سے نہ صرف ہم دنیا بھر سے رابطہ میں رہ سکتے ہیں بلکہ مختلف مضامین پر اپنی رائے کا کھل کر اظہار بھی کر سکتے ہیں، جو پہلے ممکن نہیں تھا۔ پاکستان میں بھی سوشل میڈیا کا پلیٹ فارم کافی مقبول ہوا لیکن آج تک ہماری اکثریت اس کے مفید استعمال سے قاصر ہے۔ مثل مشہور ہے کہ’’ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔‘‘ ایک عرصے سے اپنی آوازوں کو دلوں میں دبائے لوگوں نے اس کو اپنی بھڑاس نکالنے کا میڈیم بنا لیا۔ ہر کوئی اپنے منفی خیالات اور الٹی سیدھی سوچ یہاں آکے پھینک دیتا ہے ۔یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی پلیٹ فارم نہیں بلکہ کوئی کوڑے دان ہو۔ دنیا بھر میں لوگ اس سوشل پلیٹ فارم پر سیکھنے سکھانے کے عمل کے ساتھ ساتھ دوسرے اہم کام سرانجام دیتے ہیں، لیکن پاکستان میں یہ ماموں پھوپھی کا گھر بن چکا ہے۔ جہاں سارے جھگڑے نمٹائے جاتے ہیں۔اس کے علاوہ پاکستانی نوجوان نہ صرف اپنی ماڈلنگ کا شوق یہاں پورا کرتے ہیں بلکہ بد تمیزی اور بد اخلاقی کے تمام اسباق بھی اسی سوشل میڈیا کی بدولت سیکھتے ہیں۔

آج تک ہماری اکثریت سوشل میڈیا کے مفید استعمال سے قاصر ہے۔ مثل مشہور ہے کہ’’ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔‘‘ ایک عرصے سے اپنی آوازوں کو دلوں میں دبائے لوگوں نے اس کو اپنی بھڑاس نکالنے کا میڈیم بنا لیا۔ ہر کوئی اپنے منفی خیالات اور الٹی سیدھی سوچ یہاں آکے پھینک دیتا ہے ۔یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی پلیٹ فارم نہیں بلکہ کوئی کوڑے دان ہو۔

آج تک ہماری اکثریت سوشل میڈیا کے مفید استعمال سے قاصر ہے۔ مثل مشہور ہے کہ’’ خدا گنجے کو ناخن نہ دے۔‘‘ ایک عرصے سے اپنی آوازوں کو دلوں میں دبائے لوگوں نے اس کو اپنی بھڑاس نکالنے کا میڈیم بنا لیا۔ ہر کوئی اپنے منفی خیالات اور الٹی سیدھی سوچ یہاں آکے پھینک دیتا ہے ۔یوں لگتا ہے جیسے یہ کوئی پلیٹ فارم نہیں بلکہ کوئی کوڑے دان ہو۔

پاکستان میں سوشل میڈیا کے لئے کوئی ریگولیٹری ادارہ موجود ہے نہ واضح قوانین، جن کی مدد سے اس میڈیم پر نظر رکھی جاسکے۔ کیونکہ اس بے ترتیبی اور بے تربیت استعمال سے نہ صرف ہمارے معاشرتی اقدار کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ انفرادی اخلاقیات پر بھی بہت برے انداز سے منفی اثر ات مرتب ہورہے ہیں۔انسان کاکوئی بھی حق تب تک قابل جواز ہے،جب تک کہ وہ کسی دوسرے انسان کی حق تلفی نہ کرے۔
ہم آزادیِ رائے کے حق کو استعمال کرتے وقت اس چیز کو خاطر میں نہیں لاتے کہ کہیں اس سے کسی دوسرے انسان یا ادارے کی ساکھ کو نقصان تو نہیں پہنچ رہا؟ بس جو منھ میں آیا، بول دیا۔ یہ کسی بھی مہذب قوم کی نشانی نہیں ہوتی۔برداشت اور احترام بھی کسی چیز کا نام ہے۔ اگر ہماری سیاسی تربیت کا جائزہ لیا جائے، سوشل میڈیا پر جس میں ’’اوئے ‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہو اور ذاتی معاملات کو سوشل میڈیا میں گھسیٹ کر کردار کو داغدار کیا جاتا ہو، تو کیا یہ آزادیِ اظہارِ رائے کے زمرے میں آتا ہے؟ اب تو نامی گرامی سیاسی پارٹیوں نے بھی اسی گالم گلوچ اور با عزت سیاسی اور صحافتی شخصیات کی عزتوں کو بہ آواز بلند نیلام کرنے کے لئے سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جن کا کام ان لوگوں پرحملہ آور ہونا ہے جو پارٹی کی پالیسی پر سیاسی یا غیر سیاسی تنقید کریں۔ بیشتر عاقل لوگ تو اپنی عزت کے تحفظ میں خاموش رہتے ہیں۔

اب تو نامی گرامی سیاسی پارٹیوں نے بھی اسی گالم گلوچ اور با عزت سیاسی اور صحافتی شخصیات کی عزتوں کو بہ آواز بلند نیلام کرنے کے لئے سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جن کا کام ان لوگوں پرحملہ آور ہونا ہے جو پارٹی کی پالیسی پر سیاسی یا غیر سیاسی تنقید کریں۔ بیشتر عاقل لوگ تو اپنی عزت کے تحفظ میں خاموش رہتے ہیں۔

اب تو نامی گرامی سیاسی پارٹیوں نے بھی اسی گالم گلوچ اور با عزت سیاسی اور صحافتی شخصیات کی عزتوں کو بہ آواز بلند نیلام کرنے کے لئے سوشل میڈیا ٹیمیں تشکیل دی ہیں، جن کا کام ان لوگوں پرحملہ آور ہونا ہے جو پارٹی کی پالیسی پر سیاسی یا غیر سیاسی تنقید کریں۔ بیشتر عاقل لوگ تو اپنی عزت کے تحفظ میں خاموش رہتے ہیں۔

مثبت تنقید تو مفید ہے لیکن ان عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے؟ یہاں پر سوال یہ بھی کھڑا ہوتا ہے کہ اس بداخلاقی کا شکار افراد عدالت سے رجوع کیوں نہیں کرتے؟ کوئی واضح قوانین جو موجود نہیں ہیں۔ اور اس کے علاوہ ہتکِ عزت کے کیس کو اتنی سنجیدگی سے نہیں سنا جاتا ہے۔ کیونکہ پہلے ہی لاکھوں کی تعداد میں مختلف نوعیت کے کیسزتاریخوں کے منتظر ہیں ۔اگر کسی کیس میں جان ہو، تو معافی نامے سے معاملات نمٹا کر پھر سے اپنے کرتوتوں پر عمل پیرا ہونا سب کا معمول ہے۔سیاست دانوں پر تنقید کا یہ جواز کسی حد تک ٹھیک ہے، کیونکہ وہ عوامی نمائندے ہوتے ہیں اور عوام کے معاملات میں براہِ راست شریک ہوتے ہیں۔ لیکن عوامی معاملات اور ذاتیات میں فرق سمجھانا بھی ضروری ہے۔یہ کسی بھی قانون کے زمرے میں نہیں آتا کہ کسی کی ذاتی زندگی کو آزادیٔ رائے کے نام پر اچھالا جائے۔ اگر معاشرتی پہلو سے دیکھا جائے، تو اس کے نقصانات فوائد سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ معاشرے میں بد اخلاقی عروج پر ہے۔ اس میں کئی زیادہ کردار اخلاقی زوال کا شکار پاکستانیوں کے سوشل میڈیا کے طرز استعمال کا ہے۔ لوگ کھل کر بغیر کسی روایات کی بندشوں کے، شہرت کے واسطے کچھ بھی کرتے ہیں۔ چاہے وہ سستی شہرت ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی ایک مثال قندیل بلوچ بھی ہے جو سستی شہرت یافتہ خاتون اور سوشل میڈیا سٹار تھیں۔ان کا جواز بھی آرٹیکل 19 اور 19A تھاکہ وہ جو کہیں یا کریں انہیں آزادی حاصل ہے۔ لیکن آزادیِ رائے کے نام پر بیہودگی پھیلانا اور معاشرے کی باقی خواتین کو بے شرمی اور بیہودگی کی راہ دکھانے کا جواز کہاں جائز ہے؟
یہ ہمارا معاشرتی نظام زندگی ہے۔ اگر ہم معاشرے سے کچھ لے رہے ہیں، تو بدلے میں معاشرے کو بھی کچھ دینا پڑتا ہے۔سوشل میڈیا اس وقت اس لین دین کا ذریعہ ہے، جس پر ہمیں محتاط ہوکر اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے۔ کچھ عناصر ہمارے اسلامی اقدار کو سیکولرزم کے پسِ پردہ چھیڑرہے ہیں۔ جن کا راستہ روکنا نہ صرف ہماری مذہبی ذمہ داری ہے بلکہ سٹیٹ کو مرتدین اسلام کیلئے بلا خوف و تردد شرعی قوانین کو واضح کرنا چاہیے۔لوگ جب خود قانون ہاتھ میں لیتے ہیں، تو اس سے اقوامِ عالم میں اسلام کی بے حرمتی ہوتی ہے۔
حکمرانوں کو اس بارے میں فوری طور پر سوچنا پڑے گا۔ کیونکہ بیک وقت کسی ایک ہی کو خوش کیا جا سکتا ہے۔ مغربی آقاؤں کو، یا رب ذوالجلال کو۔