بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ وطن عزیز میں کھانے پینے کی بیشتر اشیا میں ملاوٹ کی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ادویات بھی جعلی اور دو نمبر ملتی ہیں۔ اگر کسی ملک میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بنیادی اور خالص اشیائے خوراک میں خطرناک اشیا کی ملاوٹ عام ہو، تو غور کریں کہ وہاں کے باشندے کیوں کر صحت مند ہوں گے؟ ہمارا اشارہ ربِ کائنات کی پیدا کردہ بہترین نعمت دودھ کی طرف ہے، جس میں آج کل مختلف قسم کی زہروں کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ دودھ اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمتوں میں سے ایک مفید نعمت ہے اور انسان کی نشوونما کا لازمی جز ہے۔ بے شک دودھ میں مختلف قسم کی صحت بخش کیمائی اجزا موجود ہیں لیکن خود خالق کائنات نے قرآنِ کریم کی سورۂ نحل میں دودھ کو خالص اور فرحت بخش مشروب قرار دیا ہے۔ سرکارِ دو عالمؐ کی ایک حدیث میں بھی دودھ کی اِفادیت بیان کی گئی ہے جبکہ دودھ کو جنتی لوگوں کی مرغوب غذا بھی کہا گیا ہے لیکن بڑے افسوس کا مقام ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کی گئی مملکت خداداد میں ہم اس جنتی نعمت اور مرغوب غذا کی اِفادیت سے محروم ہیں بلکہ دودھ کے نام پر ہم زہر حلق سے اُتار رہے ہیں۔

اگر کسی ملک میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بنیادی اور خالص اشیائے خوراک میں خطرناک اشیا کی ملاوٹ عام ہو، تو غور کریں کہ وہاں کے باشندے کیوں کر صحت مند ہوں گے؟

اگر کسی ملک میں اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ بنیادی اور خالص اشیائے خوراک میں خطرناک اشیا کی ملاوٹ عام ہو، تو غور کریں کہ وہاں کے باشندے کیوں کر صحت مند ہوں گے؟

وطن عزیز میں جس طرح دوسری اشیائے خوراک میں دھڑلے سے ملاوٹ کی جاتی ہے، اسی طرح آج کل خالص دودھ کا حصول بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے اور مشاہدے میں آیا ہے کہ دودھ میں ایسے خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ اس سلسلے میں ہم نے روزناموں، رسالوں اورجریدوں میں کالم نگاروں کی کالموں اور مضامین اور اخباری بیانات میں بھی پڑھا ہے کہ دودھ میں لاشوں کو محفوظ کرنے والا کیمیکل یعنی فارمیلن، یوریا کھاد، ڈٹر جنٹ پاؤڈر، بال صفا پاؤڈر، چونا اور جانوروں کی چربی سے بنائے گئے آئل کی آمیزش کی جاتی ہے اور ان غیر فطری طریقوں سے حاصل کردہ مضر صحت دودھ عوام کو بڑی ڈھٹائی سے فروخت کیا جاتا ہے جس کے استعمال سے پیچیدہ اور لا علاج بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ جب ہم ملک پیک یا کھلا کیمیکل ملا دودھ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں فوراً الرجی ہوجاتی ہے۔ منھ میں سوزش شروع ہوجاتی ہے اور جسم کے کسی حصہ خصوصاً ناک اور منھ میں پھوڑا نکل آتا ہے۔

دودھ میں لاشوں کو محفوظ کرنے والا کیمیکل یعنی فارمیلن، یوریا کھاد، ڈٹر جنٹ پاؤڈر، بال صفا پاؤڈر، چونا اور جانوروں کی چربی سے بنائے گئے آئل کی آمیزش کی جاتی ہے اور ان غیر فطری طریقوں سے حاصل کردہ مضر صحت دودھ عوام کو بڑی ڈھٹائی سے فروخت کیا جاتا ہے جس کے استعمال سے پیچیدہ اور لا علاج بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ جب ہم ملک پیک یا کھلا کیمیکل ملا دودھ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں فوراً الرجی ہوجاتی ہے۔ منھ میں سوزش شروع ہوجاتی ہے اور جسم کے کسی حصہ خصوصاً ناک اور منھ میں پھوڑا نکل آتا ہے۔

دودھ میں لاشوں کو محفوظ کرنے والا کیمیکل یعنی فارمیلن، یوریا کھاد، ڈٹر جنٹ پاؤڈر، بال صفا پاؤڈر، چونا اور جانوروں کی چربی سے بنائے گئے آئل کی آمیزش کی جاتی ہے اور ان غیر فطری طریقوں سے حاصل کردہ مضر صحت دودھ عوام کو بڑی ڈھٹائی سے فروخت کیا جاتا ہے جس کے استعمال سے پیچیدہ اور لا علاج بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارا ذاتی تجربہ بھی ہے کہ جب ہم ملک پیک یا کھلا کیمیکل ملا دودھ استعمال کرتے ہیں، تو ہمیں فوراً الرجی ہوجاتی ہے۔ منھ میں سوزش شروع ہوجاتی ہے اور جسم کے کسی حصہ خصوصاً ناک اور منھ میں پھوڑا نکل آتا ہے۔

پرانے وقتوں میں دودھ میں پانی اور ملک پاؤڈر کی ملاوٹ کی جاتی تھی جو کسی حد تک قابل قبول بات تھی، لیکن مادہ پرستی کے اس دور میں دولت کی حرص و ہوس نے انسان کو اتنا خود غرض بنایا ہے کہ وہ دولت کی لالچ میں دوسروں کو زہر کھلانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ فی زمانہ دودھ فروش، دودھ میں خطرناک کیمیکلز کی ملاوٹ کرنے سے ذرا بھی نہیں چوکتے اور دودھ کو گاڑھا کرنے کے لیے اس میں بے دھڑک ان زہروں کی آمیزش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو نہ قانون کا ڈر ہوتا ہے، نہ خوفِ خدا اور نہ آخرت کی جواب دہی کا احساس، جب کہ بے بس عوام مجبوراً یہ دودھ خریدتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دودھ انسان خصوصاً بچوں کی جسمانی نشو ونما کے لیے انتہائی ضروری ہے لیکن وطن عزیز کی مارکیٹوں میں سادہ لوح عوام کو جو دودھ مہیا کیا جاتا ہے، وہ تو انسانی صحت کے لیے مفید ہے اور نہ انسانی جسم کی ضروریات کو پوری کرتا ہے جبکہ دودھ فروش دودھ کی من مانی قیمت بھی وصول کرتے ہیں، لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ملکی سطح پر ایسے زہریلے دودھ کی فوری اور مؤثر روک تھام کی جائے اور سرکاری سطح پر عوام کو خالص دودھ کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔