میاں گل فروش کی ناقابل فراموش خدمات

چشمِ تصور میں لائیں ریاستِ سوات کا وہ دور جب پاکستان سے اخباردوسرے روز پہنچتا تھا، جہاں تعلیم اتنی عام نہیں تھی۔ پڑھنے والے کم تھے، اس لیے ایک ہی ہفت روزے کا اجرا ہوتا تھا اور ایک ہی شخص مالک، پبلشر، ایڈیٹر، کانٹینٹ کرئیٹر، رپورٹر اور ڈسٹری بیوٹر ہوتا تھا۔ اندازہ لگائیں اُس ایک […]
شہزادہ میانگل عالم زیب

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)شہزادہ میانگل عالم زیب، میانگل جہانزیب (جو 1949ء سے 1969ء تک سوات کے حکم ران تھے) کے دوسرے صاحب زادے تھے۔ بچپن میں، میاں گل عالم زیب مرگی کے شکار ہوگئے، جو اُس وقت لاعلاج بیماری […]
مدرار (چورڑئی طوطا)

بہت پرانے حاجی بابا چوک کو چشمِ تصور میں لائیں، تو ایک عجیب سی تصویر بنتی ہے۔ ایک مصروف چوک جہاں سبزی منڈی، بسوں، گوالوں، پہاڑوں سے آئے ہوئے افراد جو میوہ جات کے ڈھیر سجائے بیٹھے ہیں، پرانا ڈاک خانہ روڈ سے کسی ندی کی طرح بہتی ہوئی اترائی جو غورئی کندہ کی جانب […]
ڈاکٹر محمد احمد المعروف مفتی صاحب (مرحوم)

یہ تحریر میری انگلیاں نہیں، میرا دل لکھ رہا ہے……!لیکن سچ یہ ہے کہ قلم میرا ساتھ نہیں دے رہا۔ ہاتھ کانپتے ہیں، آنکھیں دھندلا جاتی ہیں اور الفاظ بکھر جاتے ہیں۔ کئی ہفتوں کی سعیِ لاحاصل کے بعد جب بھی کاغذ اُٹھایا، جذبات کی موجیں تحریر کے ساحل کو بہا لے گئیں۔ ایک آدھ […]
شجاع الملک (منیجر صاحب)

جناب شجاع الملک دراصل پیرداد خان کے لختِ جگر ہیں۔مینگورہ شہر کے آبائی لوگ شجاع الملک صاحب کو ’’منیجر صاحب‘‘ کَہ کر اُن کی ساری خوبیوں کا احاطہ کرلیتے ہیں۔ اس ایک لفظ (منیجر صاحب) میں اُن کی شخصیت، شرافت، خوش مزاجی، رکھ رکھاو، اپناپن اور نجانے دیگر کون کون سی خوبیوں مضمر ہیں۔دراصل بینکنگ، […]
ریاست سوات کے اداروں کا دائرہ کار

(نوٹ:۔ یہ تحریر محترم فضل رازق شہابؔ کی انگریزی یادداشتوں میں سے ایک کا ترجمہ ہے، مدیر لفظونہ ڈاٹ کام)ایک شام، والی صاحب نے اپنی گاڑی رکوائی اور ایک گارڈ کو اشارہ کیا کہ وہ اوپر جاکر ایک افسر کو لے آئے، جو افسر آباد میں رہتا تھا۔ چناں چہ وہ افسر جلدی سے نیچے […]
محمد رحیم ٹھیکے دار (مرحوم)

مینگورہ شہر کو ٹٹول کر دیکھیں، تو ہمیں ایسے لوگوں کی کمی نظر نہیں آئے گی، جنھوں نے اپنی محنت، لگن اور کاوش سے اعلا مقام حاصل کیا اور پورے معاشرے کے لیے مثال بنے۔ ملابابا روڈ اور خود ملابابا کئی محلوں پر مشتمل ایک بڑا علاقہ ہے۔ یہیں پر ایک محلہ ’’محمد رحیم ٹھیکے […]
ملک بیرم خان ’’تاتا‘‘ کی یاد میں

ملک بیرم خان المعروف ’’تاتا‘‘ یکم اکتوبر 1983ء کو میونسپل کمیٹی مینگورہ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ چار سال مکمل ہونے کے بعد 21 نومبر 1987ء کو ان کی مدتِ ملازمت ختم ہوئی۔ دوبارہ بلدیاتی انتخابات میں اُنھوں نے پھر بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کی اور 29 دسمبر 1987ء کو دوبارہ چیئرمین منتخب ہوئے۔ […]
اکرم استاد صاحب

مینگورہ شہر میں جب تعلیم کا شعور دوسری بار اُجاگر ہوا، تو اس میں مادیت نمایاں تھی۔ سائنس کی مدد سے ڈاکٹر بننا، ورنہ انجینئر بننا تو طے تھا…… اور جس نے نہیں پڑھنا، یا گھر والوں کو زیادہ معلومات نہیں تھی، وہ آرٹس لینے لگے۔ پھر سب سے بڑا معرکہ دسویں کا امتحان اچھے […]
حاجی امیر خان (مرحوم) ولد باجوڑے پاچا

فلاحی ریاستِ سوات باچا صاحب (مرحوم) اور والی صاحب (مرحوم) کی لیڈر شپ میں واقعی اعلا مثالیں قائم کر رہی تھی۔ ہر نسلی گروپ اور قوم کے افراد نے ریاست کی کام یابی میں تن من دھن کی قربان دی۔ ’’یوسف زئی ریاستِ سوات‘‘ کے نام سے قائم ریاست میں قدرے نئے شہری یوسف زو […]
مور پنڈیٔ کاکا (مدین) کی یاد میں

عبد الرحیم میاں، جنھیں عام طور پر مور پنڈیٔ کاکا کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اخوند خیل میاں گان کے چشم و چراغ تھے۔ اُن کی پیدایش 1872ء کے آس پاس تیرات مدین سوات میں ہوئی اور 1949 عیسوی بہ مقام مور پنڈیٔ (مدین) میں ہوئی۔ عبد الرحیم کاکا کے والدِ بزرگوار کا […]
عجب خان حاجی صاحب کی یاد میں

6 مئی 2020ء کے ایک بہت ہی تھکا دینے والے دن عین نمازِ عصر کی اذان کے ساتھ عجب خان حاجی صاحب نے اذان کا جواب دینا اور کلمۂ شہادت پڑھنا شروع کیا۔ اذان ختم ہوئی اور حاجی صاحب خاموش ہوگئے۔ فوراً رحمان اللہ بابو صاحب کو بلایا گیا، وہ لمحوں کے حساب سے پہنچے […]
ملوک حاجی صاحب، ایک سچا دوست

گذشتہ کچھ دنوں سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’’فیس بُک‘‘ پر چند مخصوص دوستوں کی جانب سے مینگورہ کی ایک نام ور شخصیت کے بارے میں کچھ ہونی اَن ہونی باتیں سامنے آتی رہیں۔ مَیں نے ایک آدھ کا جواب دیا بھی…… مگر آج جی چاہتا ہے کہ کچھ متنازع باتوں کو نظر انداز […]
ریاست سوات دور کی ملازمت کیسی ہوتی تھی؟

ریاستی دور کی ملازمت بھی ایک ایڈونچر سے کم نہیں تھی۔ صبح شیو کرنے کے بعد موسم کی مناسبت سے مغربی لباس پہننا، ٹائی یا بو لگانا، صاف ستھرا نظر آنے کا اہتمام کرنا اور اگر حضور کے دفتر میں پیشی کا موقع ملا ہے، تو دعائیں مانگنا اس پر مستزاد۔ فضل رازق شہاب کی […]
صنوبر استاد صاحب

سنہ 1980ء کی دہائی میں جن اساتذہ کا توتی بولتا تھا، اُن میں سے ایک صنوبر اُستاد صاحب بھی تھے۔ خورشید علی میرخیل، صنوبر اُستاد صاحب کے داماد اور گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول حاجی بابا میں ’’سیکنڈری سکول ٹیچر‘‘ (ایس ایس ٹی) کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ صنوبر […]
حاجی سیف الملوک (ملوک حاجی صیب) کی یاد میں

ضیاء الحق کا دور تھا۔ وہ پوری فوجی طاقت اور جلال کے ساتھ مسندِ اقتدار پر براجمان تھے۔ ان کے نیچے لیفٹیننٹ جنرل فضل حق سرحد کے گورنر اور صوبائی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ طاقت تو رکھتے ہی تھے مگر اُن کا نشہ اُس طاقت سے کہیں بڑھ کر تھا۔ ساجد امان کی دیگر تحاریر […]
مختیار احمد (قمر آپٹکو) کی یاد میں

ہمارے معاشرے میں شہید مختیار جیسے چند لوگ ہی ہوتے ہیں، جو مخلص، ملنسار، صاف نیت اور مہذب ہوتے ہیں۔ ان سے جب میری پہلی ملاقات اُن کی دکان میں ہوئی، تو مَیں اُن کو نہیں جانتا تھا، مگر مجھے حیرت ہوئی کہ وہ مجھے اچھی طرح جانتے تھے۔ پہلی ملاقات میں بڑی اپنائیت سے […]
والئی سوات کے پرائیویٹ سیکرٹری پردل خان لالا

بیورو کریسی چاہے پاکستان جیسے بڑے ملک کی ہو، یا سوات کی مختصر سی ریاست کی۔ کئی مشترک قدریں رکھتی ہے۔ مثلاً: ’’کرپشن۔‘‘ یہ ضروری نہیں کہ سول اور ملٹری بیورو کریسی "As a whole” بدعنوانی میں ملوث ہو۔ وہ جو کہتے ہیں: ’’ہر بیشہ گمان مبر کہ خالی است، شاید کہ پلنگ خفتہ باشد۔‘‘ […]
پروفیسر خواجہ عثمان علی کی آمد اور کچھ پرانی یادیں

ٹائم تو مَیں نے نہیں دیکھا، مگر شام سے تھوڑی دیر پہلے کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میرا پوتا مزمل باہر گیا اور واپس آکر بتایا کہ ’’پروفیسر خواجہ عثمان علی صاحب آئے ہیں۔‘‘ فضل رازق شہاب کی دیگر تحاریر پڑھنے کے لیے نیچے دیے گئے لنک پر کلک کیجیے: https://lafzuna.com/author/fazal-raziq-shahaab/ یقین کیجیے مَیں تھوڑا سا […]
ہماری کیرم بورڈ سے جڑی جوانی کی یادیں

کل پرسوں اپنے پوتوں کے ساتھ کیرم کھیل رہا تھا۔ مَیں نے ایک دفعہ ویسے کَہ دیا کہ مجھے وہ دن بہت یاد آرہے ہیں، جب مَیں ڈگر کالج کی کالونی میں قیام پذیر تھا۔ ہم یعنی پروفیسر ہمایوں خان، پروفیسر قاضی عبدالواسع اور ہمارے ایس ڈی اُو جمیل الرحمان صاحب اور مَیں شام کے […]
تاریخی ودودیہ سکول کے اولین طلبہ

جیسا کہ سکول ریکارڈ سے ظاہر ہے، ودودیہ ہائی سکول کے دوسرے دور کا آغاز یکم اپریل 1952ء کو ہوا۔ جب سنٹرل جیل سیدو شریف کو مناسب ترمیم کے ساتھ سکول میں تبدل کیا گیا۔ ہم پانچویں کلاس میں اس کے ابتدائی طلبہ میں شامل ہوئے۔ میرے اس وقت کے کلاس فیلوز میں میرے بڑے […]